تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اتفاق رائے سے آرمی ایکٹ اور آئین میں اکیسویں ترمیم کو منظور کرلیا ہے۔ اب صدر پاکستان کے دستخط کے ساتھ یہ ترمیم آئین کا حصہ بن جائیں گی۔ مختلف سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں رائے دہی سے قبل اختلافی باتیں کی گئی ہیں مگر نوید ہے کہ کسی نے ان ترامیم کے خلاف ووٹ نہیں دیا ہے۔
دو گھنٹے اور بارہ منٹ جاری رہنے والے سینٹ کے اس تاریخی اجلاس میں ایوان کے 104ممبران میں سے 26اراکین نے قانونی سازی میں حصہ نہیں لیا جن میں جمعیت علمائے اسلام کے چھ اراکین بھی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں 21ویں آئینی اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی منظوری کے موقع پر وفاقی کابینہ کے 3 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ جے یو آئی کے اکرم درانی، نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مرتضی جتوئی اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق غیر حاضر تھے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ کے 11 ارکان بھی غیر حاضر رہے۔
پیپلز پارٹی کے 10 ارکان قومی اسمبلی غیر حاضر رہے۔ ان میں اعجاز جاکھرانی، امین فہیم، فریال تالپور، ایاز سومرو اور دیگر شامل ہیں۔ عوامی جمہوری اتحاد کے عثمان ترکئی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن عیسیٰ نوری، جمعیت علما اسلام ف کے تمام 12 ارکان ایوان میں نہیں آئے۔ جماعت اسلامی کے چار ارکان اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید غیر حاضر تھے۔ تحریک انصاف کے 34 ارکان اپنے استعفوں کے باعث پہلے ہی اجلاس میں نہیں آ رہے۔ فاٹا کے 2 ارکان قیصر جمال اور جمال الدین بھی غیر حاضر تھے۔ مسلم لیگ ن کے غیر حاضر ارکان میں رضا حیات ہراج، ملک عذیر، صدیق بلوچ، پروین مسعود بھٹی، شائستہ پرویز ملک اور دیگر شامل تھے۔ ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے 75فیصد اراکین موجود تھے۔
پیپلز پارٹی کے سینٹ میں پارلیمانی لیڈر ر ضا ربانی اکیسویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر ایوان میں تقریر کے دوران رو پڑے اور انہوں نے کہا کہ میں نے آج پہلی بار اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔ میرے پاس یہ ووٹ پارٹی کی امانت تھا اور میں اعلیٰ قیادت کے فیصلوں کا امین ہوں۔ مجھے اس سینٹ میں تقریباً 10 سے 12 سال ہو چکے ہیں لیکن شاید جتنا شرمندہ میں آج ہوں شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ رندھی ہوئی آواز میں رضا ربانی بمشکل تین جملے ہی ادا کر پائے اور ان کا آخری جملہ ادھورا ہی رہ گیا۔
21ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری سے ثابت ہوگیا ہے قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے۔ قومی قیادت نے جس اتحاد کا مظاہر ہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ دہشت گردی کو کچلنے کے لئے سخت ترین اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی سے موثر طور پر نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے خوش آئند ہے۔ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ موجودہ حالات غیرمعمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ دہشت گردوں کا ناپاک وجود ختم کر کے ہی پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنایا جاسکتا ہے۔ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے کیونکہ جنگیں ہمیشہ اتحاد کی قوت اور عوام کی حمایت و تائید سے ہی جیتی جاتی ہیں۔
اختلاف کرنے والوں کا تو کیا کہنا لیکن ان ترامیم کا بیڑا اٹھانے والے یعنی حکومت کے اراکین اور وزیروں نے بھی نئی ترمیموں کو جمہوریت کش قرار دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر داخلہ کی ہوشربا تقریر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا مگر سنگین حالات میں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ آئین میں ترمیم کی سب سے طاقتور حامی اور قومی اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی اور سینیٹ کی اکثریتی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی نے پانچ جنوری کو ووٹ میں حصہ لینے سے معذرت کی تھی کیونکہ اس روز اس آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کا دن تھا۔
یہ تو ان لوگوں کا معاملہ تھا جو جمہوری اصول کی بنیاد پر یہ اقرار کرتے ہیں کہ اکیسویں ترمیم اس آئین کو غیر جمہوری بنادے گی۔ فوجی عدالتوں کا قیام سول سیاسی انتظام کی پیٹھ میں چھرا بھونکنے کے مترادف ہے۔ اس جنازے کو کاندھا دینے والوں میں یہ سب اصول پرست شامل تھے۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران جس طرح مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس کے بعد دنیا کا کوئی بھی ذی فہم مذہبی استحصال اور انتہا پسندی کے تال میل سے انکار نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہ مؤقف اختیار کرنا کہ اس ترمیم میں مذہبی انتہاپسندی کے خلاف اقدام کا مطلب یہ ہوگا کہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا، انتہائی گمراہ کن اور ناقابل قبول نقطہ نظر ہے۔ اسلام کے نام پر ایک دہائی سے بھیزیادہ عرصے سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔ عقیدے اور شریعت کے اس غلط استعمال کے نتیجے میں صرف پاکستان میں پچاس ہزار افراد سے زیادہ لوگ جان سے گئے ہیں۔ اب اگر ان عناصر کے خلاف کارروائی کی بات ہو رہی ہے تو ان دینداروں کو ایک بار پھر اسلام خطرے میں نظر آنے لگا ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس وقت کبھی ان سماج دشمن عناصر کا ہاتھ روکنے اور انہیں دین کو غلط طور سے نعرہ بنا کر دہشت گردی کرنے سے روکنے کی کوشش نہیں کی جب وہ معصوم لوگوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔
مبصرین کاکہناہے کہ یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ دہشت گردی کے کئی واقعات میں دیگر اداروں مثلا یونیورسٹیوں اور فوج وغیرہ کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ایک تو کسی دوسرے کے جرم کا حوالہ دیکر اپنے جرم کو درست ثابت کرنا بدترین دلیل ہے۔ دوسرے فی الوقت دنیا جس دہشت گردی کا سامنا کررہی ہے ، اس میں ملوث لوگوں کا تعلق خواہ کسی ادارے ، طبقے اور گروہ سے ہو، انہیں تحریک صرف ان دینی مدارس سے ملتی ہے جو جہاد کو اپنی صوابدید کے مطابق قتل کرنے کا لائیسنس بنانے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہمت ہے تو اس رویہ کے خلاف آواز اٹھائیے ، یہی دین اور انسانیت کی حقیقی خدمت ہوگی وگرنہ دنیا اور آخرت میں آپ کا شمار بھی ظالموں میں ہو گا۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ