بچپن میں سبھی دادی اماں کی گود میں لیٹ کر کہانیاں سنا کرتے تھے۔ دادی بھی مزے مزے کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ کبھی کسی دیس کی تو کبھی کسی ملک کی۔ ایسی ہی ایک کہانی نہ جانے کیوں میرا من آپ کو سنانے کو کر رہا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں جب ایک بر صغیر کے دامن کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تو ایک حصے میں زمین تو تھی مگر لوگ اتنے نہ تھے، جو تھے وہ خاصے غریب ہوا کرتے تھے۔ پھر ملک کے دوسرے حصے سے مسلمان کم آبادی والے نوزائیدہ وطن چلے آئے۔ یہاں تو ایک ہی بڑا شہر ہوا کرتا تھا وہ تھا لاہور۔ نہ جانے کتنے دروازوں کا شہر۔ جس سے دل کرے آؤ اور جس سے من کرے جاؤ۔ ایسا ہی تہذیب کا گہوارہ تھا وہ شہر۔
ہندوستان میں یوپی اور سی بھی ہوا کرتا تھا اور پنجاب جب تقسیم ہوا تو ای پی بھی ہوگیا یعنی ایسٹ پنجاب۔ لوگ بے شمار چلے آئے۔ ایوب دور میں تو آمد رکتی ہی نہ تھی۔ لوگ آرہے تھے اور آبادی بڑھ رہی تھی۔
پھر دور اسی دیس میں ایک شہر ہوا کرتا تھا۔ سنا بمبئی سے الگ ہوا وہ ساحلی شہر بھی مگر تقسیم ہند سے کچھ پہلے ہی ہوگیا تھا۔ انگریز کے ہاتھ لگے ہوں تو سوچیں کچھ تو کشش ہو گی جو انگریز نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوگا۔
اس شہر کو سب نے اپنے اپنے لہجے سے پکارا۔ ستر کے عشرے میں تو سارا ملک ہی اس شہر میں امنڈ آیا۔ یوپی والوں کا کرانچی تو شہر کے قدیم لوگوں کا کلانچی اور ملک بھر سے آنے والوں کا کراچی۔
شہر کی اپنی کوئی تہذیب تو تھی نہ۔ یوپی والوں کا لہجہ عام ہوا اور کیوں نہ ہوتا، سارے ہندوستان سے جو بھی آیا اس کو مواقع کی سرزمین یہ شہر ہی لگا۔ یوں تو سارے ملک میں یوپی سی پی سے آنے والے اب بھی آباد ہیں مگر کراچی میں کچھ زیادہ ٹھہرے۔
پھر نہ جانے کیا ہوا۔ اسی کے عشرے میں کچھ ایسی فضا بنی کہ انسان انسان کے لہو کا پیاسا ہوگیا۔ لسانیت زدہ شہر کی ہوا ایسی بدلی۔ سب بیگانے سے ہوگئے۔ تم مہاجر، میں سندھی، تم پنجابی، میں کشمیری۔ 1947ء میں پاکستان بنتے وقت کلمہ پڑھنے والے اس شہر میں زبانوں میں بٹ گئے۔
جس شہر کی سڑکیں کبھی پانی سے دھلتی تھیں پھر ان پر روز ہی لہو گرنے لگا۔ نوے کے عشرے کو تو کوئی بھی نہیں بھول سکتا۔ نئی صدی کا پہلا عشرہ بھی دکھوں میں بھرا تھا اور بارہ مئی تو ایسا تاریک دن کہ اس دن ہر سال کوئی حادثہ مقدر لگتا تھا۔
بارہ مئی یادوں کو لئے اس مرتبہ بھی شہر اجڑا پڑا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ بارہ مئی کو کراچی کے زخموں پہ مرحم رکھنے کپتان چلا آیا۔ ایسا استقبال کہ پی ٹی آئی کی تاریخ کا کراچی کا سب سے بڑا جلسہ۔ جس میں ہر زبان بولنے والا جلسہ گاہ کی طرف آ نکلا۔
ایک امید لیے کہ شہر بدل جائے۔ لوگ پھر سے ایک جھنڈے تلے ایک ہوں۔ ایک وفاقی پارٹی شہر کو اپنا بنانے بلکہ شہر کا حصہ بننے چلی آئی تھی۔ اب تو لگتا تھا۔ کپتان کراچی کا ہی ہو کر رہ گیا ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ کراچی میں بسنے والوں کے دلوں میں کیا بھلا پی ٹی آئی بھی آن بسی کہ ابھی اس میں وقت لگے گا۔
بارہ مئی کو پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ رہا۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سے وابستہ مرکزی ذمہ دار ارسلان خالد کے مطابق ”جلسہ اوراس کی سوشل میڈیا پر کوریج شاندار رہی۔”
معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ فرحان ور ک نے جلسے کے حوالے سے بتایا ”کراچی جلسہ تحریک انصاف کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس شہر میں بانی ایم کیو ایم نے ریاست کے خلاف ہرزہ رسائی کی تھی۔ ان کے دکھوں پر مرہم صرف عمران خان رکھ سکتا ہے۔”
عارف علوی نے ٹویٹ کی جس میں انہوں نے بتایا کہ عمران خان اپنے تقریر کیلئے کتنی محنت کرتے
جلسہ سے پہلے علی زیدی نے ٹویٹ کرتے ہوئے عمران خان کی تقریر پر حتمی نظر ڈالنے کی تصویر شیئر کی۔
جلسہ گاہ میں فردوس نقوی تو اس خوش نظر آئے کہ ان کی اسٹیج پر مسکراہٹ سے بھرپور تصویر ان کے دل کی عکاسی کرتی نظر آ
عامر لیاقت نے تصویر کے ساتھ ٹویٹ میں لکھا” ہم ایک ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا پیار بھی سلامت ہے۔ حاسدوں کے لیے واضح پیغام۔ ۔ ۔ گلے لگتے ہی گلے دور ہو گئے
شخصیت پرستی پر ابھی بھی ووٹ پڑتے ہیں۔
اس پر سلمان احمد کہاں پیچھے ہٹنے والے تھے فوراَ ہی عامر لیاقت کے ٹویٹ پر کمنٹ دے ڈالے۔سلمان احمد نے عامر لیاقت کے ٹویٹ پر کمنٹس دیتے ہوئے لکھا ”بڑھتی رہے یہ روشنی۔ چلتا رہے یہ کارواں۔” ہم ایک ہیں… … ہمارا پیار بھی سلامت ہے… حاسدوں کے لیے واضح پیغام… گلے لگتے ہی گِلے دور ہوگئ
جلسے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے کراچی کے عوام کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔
جلسے میں عوام کی شرکت پرپی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ٹویٹ کی”تحریک انصاف کے تبدیلی کے ایجنڈے کی بھرپور حمایت میں نکلنے پر میں کراچی کی پرجوش عوام کا شکر گزار ہوں۔”تحریک انصاف کے تبدیلی کے ایجنڈے کی بھرپور حمایت میں نکلنے پر میں کراچی کر پرجوش عوام کا شکرگزار ہوں
سندھ کے سینئر رہنماحلیم عادل شیخ نے ٹویٹ کی”شکریہ کراچی۔ کراچی کی عوام کو مبارکباد پیش کرت ہیں۔”
وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے اپنی اور عمران خان کی تقریر کرتے تصویروں کے ساتھ ٹویٹ کی
عمران اسماعیل نے تو عجب ہی لکھا ”کراچی کی جانب سے حیرت انگیز ردعمل۔ اسے جلسہ کہتے ہیں۔
کراچی کے نائب صدر سرور راجپوت کے مطابق ”شدید گرمی میں لوگ باہر نکل کر جلسے میں شامل ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی نگاہیں عمران خان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے میں صرف کراچی کے ووٹر ہی شریک تھے۔ ”
پی ٹی آئی سے وابستہ نفیس الرحمن شیخ کے مطابق ”جوش و خروش تھا۔ کم سے کم تیس سے پینتیس ہزارکراچی کے ووٹر موجود تھے۔ جلسے کی کامیابی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ رات گیارہ بجے تک لوگ عمران خان کو سننے کیلئے جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ ”
میرا کراچی ایسا ہے کہ ہر کسی کو رہنے کی جگہ دیتا ہے تو بھلا ایسا کب ممکن ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یہاں جگہ نہ ملے اور یوں بھی وفاقی جماعت تو مضبوط وفاق کی علامت ہوتی ہے۔ تو ووٹ کس کو دینا ہے کراچی والو۔ سوچئے گا ضرور۔