اسلام آباد(ایس ایم حسنین) سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکائونٹ مستقلاً بند کردیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا تشدد پر مزید اکسانے جانے کے خطرے کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی حالیہ ٹوئٹس اور سیاق و سباق کا بغور جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایک روز قبل صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ 12 گھنٹوں کے لیے لاک کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ٹوئٹر کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اگر ٹرمپ کی جانب سے اس پلیٹ فارم کے قواعد کی پھر سے خلاف ورزی کی گئی تو ان پر یہ پابندی مستقل طور پر عائد کر دی جائے گی۔
واضح رہے کہ بدھ کو صدر ٹرمپ کی جانب سے متعدد ٹوئٹس کی گئی تھیں جن میں انھوں نے کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والے لوگوں کو محبِ وطن کہہ کر پکارا تھا۔ جمعرات کو فیس بک نے کہا تھا کہ وہ غیر معینہ مدت تک کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ معطل کر رہی ہے۔ ادھر معروف گیمنگ پلیٹ فارم ٹوِچ نے بھی صدر ٹرمپ کے اس چینل پر غیر معینہ مدت تک کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنے جلسوں اور ریلیوں کو نشر کیا کرتے تھے۔
بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہیں کروں گا۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 20 جنوری کو نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہیں کریں گے۔ انھوں نے اپنے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ 20 جنوری کو تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تاریخ میں وہ چوتھے صدر ہوں گے جو نو منتخب صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہیں کریں گے۔
آخری مرتبہ ایسا سنہ 1869 میں ہوا تھا جب اینڈریو جانسن نے نومنتخب صدر یولیسز گرانٹ کی تقریب حلف برداری میں جانے سے انکار کیا تھا۔
To all of those who have asked, I will not be going to the Inauguration on January 20th.
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) January 8, 2021
بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق ٹرمپ اس دوران سکاٹ لینڈ میں اپنے گالف کورس جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے تاہم سکاٹ لینڈ کی حکومت کی سربراہ نکولا سٹرجن نے کہا ہے کہ وہ انھیں ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گی۔
اقتدار کی منظم طریقے سے منتقلی
خیال رہے کہ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے اگلے ہی روز ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اقتدار کی منظم منتقلی کے عمل کے لیے پرعزم ہیں تاہم ان کے مخالفین ان کی مدتِ صدارت مکمل ہونے سے قبل ہی انھیں ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ٹوئٹر پر شائع کیا گیا اور اسے ان کی جانب سے عوامی سطح پر انتخابی شکست تسلیم کرنے کا پہلا اظہار سمجھا جا رہا ہے۔
امریکی صدر کی جانب سے یہ بات ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے انھیں مدت ختم ہونے سے قبل ہی عہدۂ صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔بدھ کو جو بائیڈن کی صدارتی انتخاب میں کامیابی کی توثیق کے موقع پر صدر ٹرمپ کے حامی یو ایس کیپیٹل کی عمارت میں گھس گئے تھے اور وہاں ہنگامہ آرائی کے دوران اب تک پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جن میں سے ایک خاتون پولیس کی گولی لگنے سے ہلاک ہوئی جبکہ اس واقعے میں زخمی ہونے والا ایک اہلکار ہسپتال میں ہلاک ہوا ہے۔ بقیہ تین افراد ہنگامہ آرائی کے دوران طبی وجوہات کی وجہ سے جان سے گئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا کہا؟
جمعرات کی شام ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب جب کہ کانگریس نے انتخابی نتائج کی تصدیق کر دی ہے، نئی انتظامیہ 20 جنوری کو اپنا کام سنبھال لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ’اب میری توجہ اقتدار کی بلارکاوٹ اور منظم طریقے سے منتقلی پر ہے اور مفاہمت اس وقت کی ضرورت ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے اپنے پیغام میں ووٹر فراڈ کے بارے میں اپنے بنیاد دعوؤں کا ذکر نہیں کیا جو بدھ کو ان کے حامیوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کی وجہ بنے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے ہنگامہ آرائی کے بعد فوراً نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے احکامات دے دیے تھے تاہم کچھ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق انھوں نے اس سلسلے میں ہچکچاہٹ دکھائی تھی جس پر نائب صدر کی جانب سے یہ احکامات دیے گئے تھے۔
امریکی صدر کا یہ پیغام ان کی جانب سے باقاعدہ انتخابی شکست تسلیم کرنے سے نزدیک ترین چیز ہے۔ اس سے قبل وہ یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں اور نومبر میں انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ بائیڈن کی الیکشن میں فتح کی وجہ انتخاب میں دھاندلی ہونا تھی۔ٹرمپ کو صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ کون کر رہا ہے؟
امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں صدر ٹرمپ کے مخالفین نے بدھ کو کپیٹل ہل میں ان کے حامیوں کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے بعد انھیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی اور سینیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے قائد چک شومر نے نائب صدر مائیک پینس اور صدر ٹرمپ کی کابینہ پر زور دیا ہے کہ وہ ’بغاوت پر اکسانے پر‘ صدر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیں۔
ایک مشترکہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’صدر کے خطرناک اقدامات کے بعد ضروری ہے کہ انھیں فوری طور پر عہدے سے ہٹا دی جائے۔‘
ان رہنماؤں نے اس سلسلے میں امریکی آئین کی 25ویں ترمیم کے استعمال کی بات کی ہے جس کے تحت اگر صدر ذہنی یا جسمانی بیماری کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہو تو نائب صدر اس کی جگہ لے سکتا ہے۔
تاہم اس شق کو لاگو کرنے کے لیے نائب صدر پینس اور کابینہ کے کم از کم آٹھ اراکین کو ساتھ ملنا ہو گا اور بظاہر ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
نینسی پلوسی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نائب صدر اس سلسلے میں اقدام نہیں کرتے تو وہ ایوانِ نمائندگان میں دوسری مرتبہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے لیے اجلاس بلا سکتی ہیں۔
تاہم اس مواخذے کی کامیابی کے لیے بھی ڈیموکریٹس کو سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی جو کہ ان کے پاس نہیں ہے۔استعفوں کی لہر
جمعرات کی شام وزیرِ تعلیم بیٹسی ڈیووس ٹرمپ کابینہ کا وہ دوسری رکن بنیں جنھوں نے کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دیا ہے۔
انھوں نے اپنے استعفے میں صدر کو بدھ کو پیش آنے والے واقعے کے لیے ذمہ دار قرار دیا۔
ان سے قبل وزیرِ ٹرانسپورٹ الین چاؤ نے بھی یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ اس ہنگامہ آرائی نے انھیں بری طرح پریشان کیا ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے اور بھی متعدد ارکان نے استعفیٰ دیا جن میں خصوصی ایلچی مائیک ملونے، سینیئر سکیورٹی افسر اور خاتون اوّل کی پریس سیکریٹری شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اور بہت سے جونیئر افسران نے بھی استعفے دیے ہیں۔
ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس کا کردار
خیال رہے کہ بدھ کو کانگرس کے مشترکہ اجلاس کے دوران کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے اور ہنگامہ آرائی کے بعد اب تک 68 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اس وقت پولیس کی جانب سے صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بہت تنقید کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پولیس اس پرتشدد ہنگامہ آرائی کو روکنے میں ناکام ہوئی۔
ادھر کیپیٹل کی پولیس، یو ایس سی پی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کے افسران نے مجرمانہ انداز میں کیےن جانے والے فساد کا سامنا کیا۔ انھوں نے اپنے افسران کی کارروائی کو سراہا اور انھیں بہادر کہا۔
تاہم نینسی پلوسی نے انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا کہنا ہے اور واشنگٹن ڈی سی کی پولیس یونین نے کہا ہے کہ کیپیٹل ہل میں یو ایس سی پی کی لیڈر شپ اس حملے کے لیے نہ تو عددی اعتبار سے اور نہ ہی وسائل کے لحاظ سے تیار تھی۔