’ سوشل میڈیا اور ابلاغ ’’ کے موضوع پر اگر کوئی شخص کچھ کہنے کے لیے سب سے زیادہ غیر موزوں ہے تو وہ میں ہوں۔مگر غلطی میری ہے۔مجھے اپنے مدعوئین کو پیشگی آگاہ کرنا چاہیے تھا کہ بھائی اس موضوع پر بات کرنے کے لیے صرف ان اصحاب کو زحمت دیں جن کے پاس اینڈورائیڈ ٹیکنالوجی سے مسلح ٹچ موبائل فون ہوں کہ جن میں فور جی نہ سہی تو تھری جی ہی آتا ہو۔میرے پاس تو سترہ سو ساٹھ روپے والا نوکیا چھتیس دس ماڈل ہے۔اس میں تھری جی تو خیر کیا ہوگا اسے تو جی تھری بھی اپنے نشانے پر نہ باندھے۔
اگرچہ میرے اکثر لنگوٹئیے دوست میرا شمار خشکوں میں کرتے ہیں۔مگر اینڈورائیڈ ٹیکنالوجیانہ علت سے پاک ہونے کے سبب میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جہاں تک آئی کنٹیکٹ یا منہ در منہ گفتگو کا معاملہ ہے میں اپنے تئیں سوشل میڈیائی ہتھیاروں سے مسلح تمام احباب سے زیادہ سوشل ہوں۔
جب اپنے اردگرد فیس بک ، ٹویٹر اور جانے کیا کیا سے مسلح احباب کے دونوں ہاتھوں کو مسلسل اس ڈجیٹل بٹیر سے کھیلتے دیکھتا ہوں تو شکر بجا لاتا ہوں کہ میرے پاس جو موبائل فون ہے اس میں کال کرنے اور ریسیو کرنے کے علاوہ واحد اضافی سہولت ایس ایم ایس کی ہے۔میرا ماننا ہے کہ آدمی ہو نہ ہو فون جس قدر لادین ہوگا زندگی اتنی ہی سکھی گذرے گی۔ ایک انگلی سے ٹچ اسکرین کو گھساتے فونچی احباب و رشتے داروں کی طرح کم ازکم یہ تو نہیں کہنا پڑے گا کہ ہاں ہاں میں سن رہا ہوں تم بولتے رہو۔میں ایک اہم وٹس ایپ چیک کر رہا ہوں۔
مجھے کئی برس سے اس شخص کی تلاش ہے جس نے ان سوشل میڈیا میں سے ان کا لفظ غائب کر کے ’’ انی پا دتی’’ اور پھر اس کا نام سوشل میڈیا رکھ دیا۔
ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیااس نیت سے تخلیق کیا گیا ہو کہ یہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت اس کرہ ارض کو صحیع معنوں میں ایک گلوبل ولیج بنا دے گا۔ہم ایک دوسرے سے ربط میں آکر نہ صرف اپنے دکھ سکھ رئیل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ پائیں گے۔میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ آٹھ ہزار برس پہلے پہیے کی ایجاد کے بعد انسان نے جو سب سے اہم ایجاد کی ہے وہ انٹرنیٹ ہے۔
ابھی کل کی ہی تو بات ہے جب انیس سو بانوے میں بی بی سی اردو کے سائنس میگزین دریافت میں بطور پریزینٹر میں نے ہی یہ خبر پڑھی تھی کہ وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ ونگ سے نارتھ ونگ تک ایک کمپیوٹر کے زریعے صدر بل کلنٹن نے پہلی ای میل بھیجی ہے۔اور آج چوبیس برس بعد جب میں یہ واقعہ سوچتا ہوں تو خود ہی ہنس پڑتا ہوں۔
یہ بالکل درست ہے کہ سوشل میڈیا تک ہر شخص کی ممکنہ رسائی کے سبب اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔اب کوئی چاہے بھی تو یو ٹیوب بند کرنے کے باوجود یو ٹیوب نہیں بند کر سکتا کیونکہ میرے ہاتھ میں اس تک گھوم گھما کر پہنچانے والے کئی سافٹ وئیرز ہیں۔اب کوئی ایڈیٹر میرا مضمون چھپانے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔
سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کالعدم کردیا۔جن ممالک میں سوشل میڈیا کو سائبر قوانین کی زنجیریں پہنانے کی کوشش کی گئی، انھی ممالک میں دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو اڑا کے رکھ دیا۔وکی لیکس سوشل میڈیا کی انقلابی فضا میں ہی پنپ سکتا تھا۔اگر انٹرنیٹ نہ ہوتا تو پانامہ لیکس بھی نہ ہوتا۔ریختہ کی ویب سائٹ بھی نہ ہوتی جس نے اردو کو زبان کی حد سے نکال کر عالمی لسانی فیشن کے ریمپ پر کھڑا کردیا۔ اگر تیونس کے ایک لاچار سبزی فروش کی خود سوزی کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے بریک نہ ہوتی تو دنیائے عرب کی خزاں عرب اسپرنگ میں شائد اتنی تیزی سے نہ بدلتی۔ترکی کے ساحل پر تین سالہ ایلان الکردی کی اوندھی لاش وائرل نہ ہوتی تو یورپ شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے شائد نہ کھولتا۔غرض سوشل میڈیا نے ان گنت امکانات کا دروازہ کھول دیا۔
لیکن میں پھر اسی جانب آوں گا کہ جس بے دریغانہ طریقے سے ہم سوشل میڈیا ٹول استعمال کر رہے ہیں۔اس کے سبب کیا ہم ایک دوسرے سے جڑ رہے ہیں یا دور ہو رہے ہیں۔ مثلاً اس کا کیا کریں کہ پہلے ہم میاں بیوی ، میاں بیوی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دو چار منٹ ہی سہیپر اچھی اچھی باتیں کر لیتے تھے۔اب وہ رات بھر میرے پاس ورڈ کی تلاش میں رہتی ہے اور میں دن بھر اس کا پاس ورڈ بریک کرنے کی ترکیبوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔جب بجلی نہ ہو تو میرا بیٹا میری گود میں سر رکھ کے کہانی سننے کی فرمائش کرتا ہے اور جیسے ہی بجلی آتی ہے وہ کہانی آدھے میں چھوڑ کر انٹرنیٹ کی گود میں سر رکھ دیتا ہے اور میں ’’ ایک منٹ سن تو لو بیٹا ’’ کرتا رھ جاتا ہوں۔
بفضلِ سوشل میڈیا ٹیکنا لوجی اپنے بچوں کے لیے میں ایک بیک ورڈ باپ ہوں کیونکہ مجھے ڈاؤن لوڈنگ کے نئے شارٹ کٹس نہیں معلوم۔میں ان کی طرح تیزی سے کی بورڈ پر انگلیوں کو کتھک نہیں کروا سکتا۔ میں وقت بچانے کی خاطر ہا ہا ہا ویری فنی کے بجائے ایل او ایل لول نہیں لکھ پاتا۔
مجھ جیسے کروڑوں سادوں کا اگر سوشل میڈیا سے تعلق ہے تو فیس بک کے ناتے سے۔کیونکہ باقی سوفٹ وئیر میری سمجھ میں نہیں آتے۔لیکن یوزر فرینڈلی فیس بک پر کسی سنجیدہ موضوع پر اپنی پسند کا مضمون یا ڈھنگ کی بات تک پہنچنا بھی دن بدن کوہِ قاف کے قلعے میں قید پری تک پہچننے جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ راستے میں انتہا پسندی و شدت پسندی سے لتھڑے بیسیوں تبصراتی ندی نالے پھلانگنے پڑتے ہیں۔یہی پتا نہیں چلتا کہ جو تصویر مجھے خوش یا اداس کر رہی ہے واقعی اوریجنل ہے یا فوٹو شاپ کے بیت الخلاسے گذر کے مجھ تک پہنچی ہے۔
کہنے کو سوشل میڈیا نے مجھے آزاد کردیا ہے۔مگر صرف مجھے آزاد نہیں کیا۔ریچھوں، بندروں، لومڑیوں، سانپوں اور حشراتِ الارض کو بھی آزاد کردیا ہے۔کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آپ کے کس جملے کا کوئی مفہوم کوئی بھی آدمی کچھ اور لے کر آپ کو کب دائرہِ اسلام سے خارج کردے یا داخل کرلے۔ اپنی پسندیدہ شخصیت پر زرا سی بھی تنقید کے ردِ عمل میں آپ کو لسانی بدفعلی کے نشانے پر رکھ لے۔ آپ کی تصویر کو ہار پہنا دے یا آپ کا چہرہ کاٹ کے خنزیر پر فٹ کر دے۔ اب آپ پر افراد حملے نہیں کرتے۔پورے پورے سائبر غول آپ کی رائے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ مجھے تو یہی نہیں معلوم ہوتا کہ جو نورین میری ہر تحریر کی تحریری پرستار ہے وہ واقعی نورین ہے یا چوہدری ستار ہے۔
مگر نورین کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ سوشل میڈیا پر اپنی اصل آئیڈنٹیٹی کے ساتھ اصلی تصویر لگائے تو بلیک میلر لگڑ بگے اس کا جینا حرام کرنے کے لیے شست لگائے منتظر رہتے ہیں۔
یہ سوشل میڈیا کا ہی تو فیض ہے کہ جنھیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں۔جنھیں سننا چاہیے وہ بول رہے ہیں۔ جنھیں بولنا چاہیے وہ چپ ہیں۔ہاں سوشل میڈیا پر اردو ویب سائٹس اور پیجز بھی ہیں۔ان پر معیاری مضامین اور تنقیدی مباحث بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔بعض ویب سائٹس زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شائستگی کے ساتھ تحریری اظہار کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں اور اختلافِ رائے کا بھی خیر مقدم کرتی ہیں۔مگر ایسی ویب سائٹس کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔
پہلے لیڈر بیان جاری کرتے تھے اب صرف ٹویٹیاتے ہیں۔پہلے اسٹیبلشمنٹ پریس ریلیز جاری کرتی تھی، پریس کانفرنس کرتی تھی، خبر گیروں سے رابطہ کر کے موقف سمجھاتی تھی۔اب ملک پر ٹویٹر والی سرکار کی حکمرانی ہے۔پہلے پترکار اور تجزیہ کار بالمشافہ بریفنگ لیتے تھے۔اب فیصلہ سازوں کے وٹس ایپ گروپ میں داخل اور خارج ہونے پر سینہ پھلاتے ہیں۔آمریت بھی وٹس ایپ پر اتر آئی ہے اور جمہوریت بھی۔
فرقہِ تسلیہ میں شامل میرے دوست کہتے ہیں کہذاتی خون نہ جلاؤں اور اپنی توجہ سنجیدہ ویب سائٹس ، پڑھے لکھے چاٹ رومز اور معیاری ٹیگنگ پر رکھوں تو بہتر ہے۔سوشل میڈیا ابھی بچہ ہے۔ذرا بڑا ہو گا تو خود بخود سدھر جائے گا۔
مگر جب میں ایسے خوش امید دوستوں سے کہتا ہوں کہ جو لوگ اپنی گلی کا کچرا صاف کرنے کے لیے بھی چینی اور ترک کمپنیوں کو ٹھیکے دے رہے ہوں۔وہ سوشل میڈیا کو انوائرنمنٹ فرینڈلی اور محفوظ بنانے کا ہمالیہ کام کیسے سر کریں گے۔ تس پر میرے یہ دوست ذرا دیر کے لیے چپ ہو جاتے ہیں۔اور پھر ان میں سے کوئی ایک دوسری طرف منہ کرتے ہوئے بڑ بڑاتا ہے ’’ رہے گا نہ یہ لعنتی کا لعنتی‘‘۔