لاہور (ویب ڈیسک) افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے پی ٹی ایم کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا آلہ کار قرار دینے اور اُن سے متعلق ریاست کے پیمانہ صبر کے لبریز ہونے کے اعلان کے بعد اِس موضوع پر بحث زور پکڑ گئی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ مجھ جیسے نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ صحافیوں کے لئے ٹی ٹی پی سے زیادہ مشکل موضوع بن گیا ہے۔ بہت کچھ جانتا ہوں، بہت کچھ سوچتا ہوں، بہت کچھ لکھ اور بول سکتا ہوں لیکن بوجوہ بول سکتا ہوں، نہ لکھ سکتا ہوں۔ اِس لئے کچھ نیا لکھنے کے بعد دوبارہ وہی کالم سپرد قلم کرتا ہوں جو 30 جنوری 2019کو اِسی صفحہ پر شائع ہوا تھا۔ ’’دروازے پر دستک دیتی نئی تباہی‘‘ کے زیرِ عنوان تمہیدی گزارشات کے بعد میں نے عرض کیا تھا کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی سیکورٹی فورسز، قوم اور بالخصوص پختون تاریخ کی بدترین آزمائش سے گزرے۔ ہر فرد، ہر ادارے اور ہر طبقے کی آزمائش اتنی سنگین تھی کہ اُسے دوسرے کی آزمائش اور قربانی کا صحیح ادراک اور احساس ہی نہ ہو سکا۔ مثلاً سیکورٹی اداروں کے لئے یہ شاید تاریخ کی طویل اور مشکل ترین جنگ تھی۔ موجودہ فوجی قیادت میں سے شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہو کہ جس نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں۔ وزیرستان اور بلوچستان کے بعض محاذوں پر ایک ہی افسر یا جوان کی دو دو، تین تین بار پوسٹنگز آئیں۔ یہ جنگ تاریخ کی مشکل ترین جنگ اِس لئے تھی کہ یہ اپنی سرزمین پر، اپنے ہم وطنوں سے لڑنا پڑی- کچھ کو دونوں سرحدوں پر پہرا دینا پڑ رہا ہے تو کچھ کو ملک کے اندر اِس طرف یا اِس طرف سے مدد لینے والے اپنے ہم وطن اور ہم کلمہ بھائیوں سے برسرِ پیکار رہنا پڑا۔ یہ جنگ اُن لوگوں کے خلاف لڑی گئی کہ جو اپنی جنگ کے لئے اِس مذہب کی آڑ لے رہے تھے جو خود اُن سیکورٹی فورسز کا بھی مذہب ہے اور اُس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ جس دشمن کے خلاف یہ جنگ لڑنا پڑی وہ ماضی میں اپنے اور اتحادی بھی رہ چکے تھے- اِسی طرح سیکورٹی فورسز کو ایک ایسی جنگ لڑنا پڑی جس پر ایک لمبے عرصہ تک پوری قوم تو کیا سیاسی جماعتیں بھی یکسو نہیں تھیں- اِسی طرح وہ ایک ایسے دشمن سے لڑرہی تھیں اور اب بھی لڑرہی ہیں کہ جس کے ہمدرد اور سہولت کار ہمارے ہر علاقے، ہر طبقے اور ہر ادارے میں موجود تھے اور ہیں۔ یوں یہ جنگ لڑنے والے جوان اور افسران جذباتی بھی ہیں اور بہت پرجوش بھی۔ وہ فتح کے جذبے سے سرشار ہیں۔ وہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اِس قوم کا ہر فرد اُن کا اور اُن کی آئندہ نسلوں کا احسان مند رہے اور اگر اُس جنگ میں اُن سے کسی غلطی یا تجاوز کا صدور ہوا بھی ہے تو اُس سے درگزر کر کے اُسے ہیرو اور محسن مانا جائے۔اِسی طرح عوام اور بالخصوص پختون بھی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرے اور اب بھی گزر رہے ہیں۔ ابتدا میں اُنہیں ریاست کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کی خاطر اُن عسکریت پسندوں، جو پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کہلائے، کو گلے سےلگا لیں۔ پھر ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ طالبان اُن پختونوں کے گلے پڑ گئے- اُن کے زعما اور جوان اُن لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ اُن کی معیشت تباہ ہوئی اور اُن کی ثقافتی اقدار تک کو تبدیل کیا گیا۔ لمبے عرصے تک ریاست تماشہ دیکھتی رہی اور یہ لوگ اُن سے لڑتے رہے، اُن کے ہاتھوں لٹتے رہے اور مرتے رہے۔ پھر یہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو بھیجا گیا جنہیں اِن لوگوں نے پاکستان کی خاطر ہار پہنائے اور سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ابتدا میں اُن کو اُن عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہ تھی یا پھر اُن میں اچھے برے کی تفریق کی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے اُن لوگوں کا ڈپریشن یوں بڑھتا رہا کہ وہ دیکھتے کہ وہی عسکریت پسند یہاں حسبِ سابق سرگرم عمل ہے لیکن اُن کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی جبکہ اُن کو مارنے کے لئے امریکی اُن کے علاقوں میں ڈرون حملے کررہے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ ریاست نے عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا گیا- چنانچہ ایک دن اچانک اُن پختونوں کو گھروں سے نکلنے کا حکم ملا۔ لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ گھربار، کاروبار، فصلیں اور باغات چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ وہ جب مہاجر بن گئے تو اُن کے لئے ریاست کی طرف سے کوئی مناسب اور متبادل بندوبست نہیں تھا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک وہ ذلیل اور خوار ہوتے رہے کیونکہ یہاں بھی اُنہیں اِس شک کے ساتھ دیکھا جاتا رہا کہ وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے معاون ہیں۔ کوئی سال مہاجر رہا، کوئی پانچ سال اور کوئی آج بھی مہاجر ہے۔ اُن لوگوں کے ساتھ پولیس اور ریاست کی طرف سے کیا سلوک ہوتا رہا، اُس کی ایک زندہ مثال نقیب اللہ محسود ہیں۔ اُن کی واپسی کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا دوبارہ حلف اٹھائیں گے اور جان لیوا اسکروٹنی سے گزرنے کے بعد وطن کارڈ کے ذریعے ہی کئی چیک پوسٹوں پر سے گزر کر اپنے علاقوں کو واپس جائیں گے۔ وہ اپنے علاقوں میں واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ جنگ اور آپریشنوں کے نتیجے میں سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ یہ لوگ مطالبے کرتے رہے لیکن حکومتیں دیگر دھندوں میں مصروف رہیں۔ اِس جنگ میں کئی لوگوں کے پیارے بھی لاپتہ ہوگئے۔ اُن لوگوں کے معیشت کے پہلے سے موجود ذرائع تباہ ہو گئے لیکن نئے فراہم نہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے اُن لوگوں کی ترجمانی کی اور نہ میڈیا نے۔ چنانچہ خود اُن کے اندر سے نوجوانوں کی ایک تحریک اٹھی اور پلک جھپکتے سارے متاثرین اُس کے گرد جمع ہونے لگے- اُن لوگوں کا پورا کیس بحیثیت مجموعی بالکل درست نظر آتا ہے لیکن بدقسمتی سے اُن کے بیانیے میں غصہ بھی ہے اور بعض حوالوں سے تجاوز بھی- جس طرح ریاست کے پاس اُن لوگوں سے متعلق کوئی جامع پالیسی نظر نہیں آتی بلکہ فائر فائٹنگ کرتی نظر آتی ہے، اِس طرح اُن لوگوں کے پاس بھی کوئی جامع منصوبہ عمل نہیں اور وہ صرف واقعات یا حادثات کی بنیاد پر ردعمل کی نفسیات کے تحت جذبات کو مزید بھڑکا رہے ہیں- جس طرح ریاست کا ایک ادارہ اُن سے متعلق کچھ تو دوسرا کچھ کررہا ہوتا ہے، اِسی طرح اُن لوگوں کی صفوں میں بھی بعض ایسے لوگ گھس آئے ہیں جن کے نعرے تو یہی لیکن ایجنڈے کچھ اور نظر آتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے یہ دونوں متاثرین اور ہیرو (سیکورٹی فورسز اور متاثرہ پختون) یک جان دو قالب ہوتے لیکن بدقسمتی سے اُن کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنے کی سازش ہورہی ہے- المیہ یہ ہے کہ دونوں متاثرہ فریق بہت جذباتی ہیں۔ ہر فریق کی قربانی اتنی زیادہ اور دکھ اتنا گہرا ہے کہ وہ دوسرے فریق کے دکھ اور مجبوریوں کا پوری طرح احساس نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے ایک دوسرے پر قربان ہونے کی بجائے وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے جارہے ہیں‘‘