کوئی نئی کتاب اچھی لگے تو خریدتا ضرور ہوں، مصروفیت کے باعث پڑھنے میں تاخیر ہو جائے تو زادِ راہ کے طور پر لمبے سفر کیلیے بیگ میں رکھ لیتا ہوں ۔آج دو انتہائی دلچسپ کتابوں کا ذکر کرونگا، پہلی کتاب انتہائی تجربہ کار سفارتکار جناب جمشید مارکر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے جو انھوں نے کوائیٹ ڈپلومیسی کے نام سے بڑی خوبصورت انگریزی میں لکھی ہے اور دوسرا محترمہ جبین چیمہ کے قلم سے دلنشین اردو میں لکھا گیا ناول ہے جو پورا پڑھے بغیر چھوڑا ہی نہیں جاسکتا۔
’’خاموش سفارتکاری‘‘کچھ عرصہ پہلے خریدی تھی مگر پڑھی اب ہے۔اس کے مصنّف جمشید مارکر پاکستان کے واحد سفارتکار ہیں جو پاکستانی سفیر کے طور پر مسلسل تیس سال خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، ان کی گوناگوں خوبیوں کے باعث سفارتی حلقوں میں نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جا تا ہے۔وہ حیدر آباد دکن کے معروف پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے فیملی بزنس کی نگرانی کررہے تھے، جب انھیں پہلی بار لیاقت علی خان شہید نے سفارتکار بننے کی دعوت دی، کراچی کے تمام معروف افراد اور فیمیلیز کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ وہ ایک لبرل اور مغربی طرزِ معاشرت کے پیروکار رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جب تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آئے توانھوں نے کراچی میں پریکٹس شروع کی۔ بھٹو صاحب اور جمشید مارکر،دونوں سندھ کلب کے ممبر اور ہم مشرب تھے۔لہٰذا دونوں کی دیرینہ دوستی تھی۔بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ انتہائی لبرل جمشید مارکر اپنے لبرل دوست ذوالفقار علی بھٹو (جنھوں نے ملک کا پہلا آئین بنایا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور شکست خوردہ فوج کے ہزاروں قیدیوں کو چھڑاکرلے آئے) کے مداح اور اسلامی سوچ رکھنے والے جنرل ضیاء الحق کے ناقد ہونگے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ اپنی کتاب میں ان دونوں شخصیات کا کیا نقشہ کھینچتے ہیں لکھتے ہیں ’’میں زلفی کو اس وقت سے جانتا تھا جب وہ ہمارے کافی ہاؤس گروپ کا حصہ تھا۔ اس کی عمر قریشی سے دوستی اور کرکٹ سے لگاؤ بھی ہمارے باہمی تعلقات کی مضبوطی کا باعث بنا۔ میں اُس وقت سے اس کی قابلیت اور جذباتی طبیعت سے آگاہ تھا‘‘۔
بھٹو صاحب کے طرزِ حکومت کے بارے میں مارکر صاحب لکھتے ہیں ’’بھٹو صاحب نے کسی جرم یا انکوائر ی کے بغیر قابل اور دیانت دار افسروں کو نکال دیا اور ان کی جگہ پارٹی ورکروں کو لگا دیا۔ بھٹو کے فاشسٹ رجحا نات جلد ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے اور ان کی حکومت کے بارے میں مایوسی پھیلنے لگی۔ بھٹو نے آئین تو بنا لیا مگر اس کی جابرانہ سوچ اور اقتدار کی ہوس نے اس میں اتنے بڑے شگاف کردئیے جس میں گاڑی سمیت گھوڑے گزر سکتے تھے۔ صوبہ بلوچستان اور سرحد کی منتخب حکومتیں ختم کردیں۔گورنر راج لگادیے اور بلوچستان میں آرمی ایکشن شروع کر دیا۔ بھٹو صاحب نے ایک جمہوری لیڈر کی طرح نہیں بلکہ ایک جابر حکمر ان کی طرح حکومت کی۔ اقتصادی میدان میں بھٹو صاحب کی پالیسیاں انتہائی مضر ثابت ہوئیں۔ ان کی نیشنلائزیشن کی پالیسی نے ملک کے مالی اور اقتصادی ڈھانچے کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔اس کے لائف اسٹائل میں تکبر تھا اور دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ اس کے تعلقات کا انداز جابرانہ تھا۔ اسی جابرانہ طرز ِحکومت کے تاریک سائے ملک پر گہرے ہوتے گئے۔ مخالف میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیااور صحافیوں کو جیلوں میںڈال دیا گیا۔ اس کے تکبر اور انتقا م کی کہانیا ں زبان زدِ خاص و عام تھیں ‘‘۔
جنرل ضیاء الحق کے بارے میںجمشید مارکرکے خیالات سے پہلے ایک واقعہ سن لیں۔ لکھتے ہیں ’’میں جرمنی میں پاکستانی سفارت خانے میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ بنگلہ دیش کے سفیر بشیر العالم مجھے ملنے آگئے، جونہی وہ بیٹھ کرباقاعدہ بات چیت شروع کرنے لگے ان کی نظر دیوار پر لگے قائداعظم کے فوٹو پر جا پڑی۔ انھوں نے میرا ہاتھ گرمجوشی سے تھا م لیا اور کہا ’’مذاکرات کو مؤخر کردیں۔ مجھے قائدکا فوٹو جی بھر کے دیکھ لینے دیں۔‘‘ کافی دیر بعد ان کے منہ سے صرف یہ فقرہ نکلا ’’اگر یہ زند ہ ہوتے تو آج یہاںہم دونوں میں سے ایک ہوتا‘‘۔کتاب میں ایک لبرل سوچ رکھنے والا غیر مسلم سفارتکار جنرل ضیاء الحق کو کئی موقعوں پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ لکھتے ہیں’’روسی فوجیں جب افغانستان میں آئیں اور ان کے قدموں کی چاپ پشاور اور کوئٹہ میں سنائی دینے لگی تو ضیاء نے مزاحمت کا دلیرانہ فیصلہ کیا۔ صدر کارٹرنے چارسو ملین ڈالر امداد کی پیشکش کی تو پاکستانی صدر نے اسے مونگ پھلی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی کے سربراہ بر زنسکی نے امریکی ایوانوں میں پاکستان کی بھر پور امدا د کی راہ ہموار کی۔ حالات تبدیل ہونے لگے۔
دنیاکامعتوب ملک پاکستان دنیا کا فیورٹ (پوسٹر بوائے) بن گیا۔ وہ ایک شخص جس نے آنے والے حالات بھانپ لیے ،امکانات کی ہواؤں کی رفتار کے مطابق اپنی کشتی کے بادبانوں کی کانٹ چھانٹ کی اور امکانات کے اہم ترین لمحے کو مُٹھی میں لے لیا وہ ضیاء الحق تھا‘‘۔ پھر لکھتے ہیں’’یہ ضیا ء الحق ہی تھے جنھوں نے بھٹو دور میں بلوچستان میں شروع کیا گیا جابرانہ فوجی آپریشن ختم کردیا۔ بلوچ رہنماؤں کو رہا کیا اور عطااللہ مینگل کو سرکاری خرچ پر علاج کیلیے یورپ بجھوایا۔ بلوچستان اس کے بعد کئی سال تک پر امن رہا۔ امریکا نے پاکستان کو 3.2 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کرنے کا معاہد ہ کیا۔
ضیاء نے اسلحہ کی تقسیم اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اسلحہ اور پیسہ صرف آئی ایس آئی کے ذریعے تقسیم ہوتا تھا۔ ضیاء الحق دور میں آئی ایس آئی ایک غیر متحر ک ادارے سے ایک متحرک ریڈ ہاٹ ادارے میں تبدیل ہوگئی۔ اگرچہ وہ آمرانہ اور جابرانہ طور طریقے استعمال کرنے کی تیاری بھی رکھتا تھا مگر اس نے حکومت انتظامی قابلیت کے بل بوتے پر چلائی۔ انتظامیہ پر کسی حکمران کی گرفت اتنی مضبوط نہیں تھی جتنی ضیاء الحق کی تھی۔ اس نے نیوکلیئر پروگرام رازداری اور آہنی عزم کے ساتھ جاری رکھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کوبرابری کے سطح پر رکھا لیکن کشمیر کے مسئلے کو ترجیحات میں پیچھے کردیا۔ اس نے حکومتی امور بڑی تیزی سے سیکھے، اُس کا طرزِ عمل شائستہ اورمہذب تھا‘‘۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’یہ بھی حقیقت ہے کہ ضیاء الحق نے اسلام کو اپنے سیاسی مقاصد کیلیے استعمال کیا‘‘۔
محترمہ جبین چیمہ کئی سال سے افسانے لکھ رہی ہیں مگر انھوں نے پہلی بار ناول لکھا جس نے دھوم مچا دی ہے۔’’عمراں لنگھیاں‘‘ گاؤں کے معزز اور خوشحال گھرانے کی بیٹی کی کہانی ہے جو یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو مخلوط تعلیم کے نئے ماحول کی چکا چوند نے اس کی آنکھیں خیرہ کردیں، جذبات نے عقل کو مغلوب کرلیا۔نازونعم سے پلی ہوئی بہت بڑے چوہدری فضل محمد کی بیٹی نرگس اپنی کلاس کے لیکچرر ہارون کی محبتّ میں گرفتار ہوگئی، مصنفہ لکھتی ہیں’’سر ہارون سامنے ہوتے تو نرگس کو دنیا مکمل لگتی ورنہ سب کچھ بیکار لگتا وہ چاہتی تھی ساری زندگی یونہی سر ہارون کے سنگ موج مستی کرتے، کھاتے پیتے، شاپنگ کرتے اور میوزک سنتے گزر جائے‘‘۔ اُدھر نرگس کے والدین نے کسی اورگھرانے میں رشتہ طے کر دیا، منگنی ہو گئی اور جس روز اس کی بارات آنا تھی اُسی روز وہ بیوٹی پارلر پر جانے کی اجازت لے کر نکلی اور پھر اس نے پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا وہ ہارون کے گھر ملتان پہنچ گئی۔
اس کے خوابوں کی جنت ایک سراب اور دھوکا ثابت ہوا۔جنت کی تلاش میں نکل کر وہ ایک ایسی جہنم میں جاگری جہاں ہر روز اُسے کچوکے لگائے جاتے، ہر روز اس کے ارمانوں کو آگ کی سلاخوں سے جلایا جاتااور ہر روز اس کی انا ظلم اور زیادتی کی چکی میں پِس کر کرچی کرچی ہوتی اورپھر جہنّم کے عذاب سے نجات بھی نہیں ملتی ملتان میں ہی اُسکی بیٹی مومنہ پیدا ہوئی۔ جو آگے چل کر اس المناک کہانی کی ہیروئن بن کر ابھری۔ کہانی میں سسپنس بھی ہے، دلچسپ موڑ بھی ہیں، معاشرے کے تضادات کی عکاّسی بھی ہے۔
مردوں کی غیر منصفانہ بالادستی کی تصویر کشی بھی ہے اور معاشرے میں عورت پر ہونے والے ظلم و ستم کا بڑا مؤثر اظہار بھی ہے۔ ناول کے آخری حصے میں نرگس کے آنسوؤں اور گھر کی دہلیز پار کرنے پراُسکے پچھتاوے نے نوجوان لڑکیوں کیلیے بڑے سبق چھوڑے ہیں۔ ظلم کی آگ میں جلتی ہوئی نرگس کے دل میں والد کی شفقت اور ماں کے ہاتھوں کے لمس کی بے پناہ خواہش بار بار انگڑائی لیتی ہے۔ پھر وہ اس پر بھی چیختی اور احتجاج کرتی ہے کہ ’’غلطی اور گناہ تو دونوں کرتے ہیں مگر سزا صرف عورت کو ہی کیوں ملتی ہے‘‘۔ کہانی اتنی دلچسپ اور اسلوب اتنا سادہ اور دلکش ہے کہ سوا دو سو صفحات کے اس ناول کو قاری ایک نشست میں ختم کر کے اُٹھتا ہے۔
ایک معروف ادیب نے ناول اور مصنفہ کے بارے میں درست لکھا ہے کہ ’’اس ایک چھوٹے سے ناول نے مصنفّہ کو بڑے جید لکھاریوں کی صف میں شامل کر دیا ہے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر پڑھی لکھی ماں کویہ ناول خود بھی پڑھنا چاہیے اور اپنی نوجوان بیٹیوں کو بھی ضرور پڑھانا چاہیے۔ ناول پڑھنے کے شوقین اس کے ناشر پروفیسر سلیم منصور سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ان کا رابطہ نمبر ہے 0320-5434909۔ نوٹ: اسلام آباد کی ایک مہذب، مخلص اور کتاب دوست شخصیت مسٹر بکس والے یوسف صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے اورکتاب بینی کی جو مشعل انھوں نے جلارکھی تھی اسے قائم رکھے۔