تحریر : انجینئر افتخار چودھری
جی ہاں مت کیجئے یہ ظلم۔ ستم ظریفی ء حالات یہ ظلم ان حکمرانوں کے دور میں ہو رہا ہے جو انہی مظالم کا شکار ہو چکے ہیں ٢٠٠٢ کہ ظالم ڈکٹیٹر کے دور میں میاں نواز شریف کے جدہ میں قریبی ساتھیوں جن میں مرحوم ارشد خان قاری شکیل مسعود پوری اور دیگر شامل تھے اپنے دفتروں سے اٹھا کر جدہ کی ترحیل میں بند کر دیے گئے تھے میں نے ان کی گرفتاری پر شور شرابہ کیا خبریں چھپوائیں اور ان کی پالیسیوں کی مخالفت کی جس کے نتیجے میں مجھے بھی دھر لیا گیا۔آج میرے کان اس خبر کر سننے کے بعد احتجاج کر اٹھے۔خدا کی کرنی دیکھئے اس وقت ٢٠٠٢ میں قونصل خانے میں سہیل علی خان پریس قونصلر تھے اور وہ جنرل درانی کے آلہ کار بنے ہوئے تھے اور ١١ سال گزرنے کے بعد بھی وہی سہیل علی خان ہے جس کا ذکر اس خبر میں ہے وہ گزشتہ پانچ سالوں سے جدہ میں کیسے ٹکا ہو ا ہے یہ الگ داستان ہے ۔لیکن نواز شریف صاحب کے دور میں پاکستانیوں کی کمائی لٹ گئی ہے اور ان کے لئے جیلیں کھول دی گئی ہیں۔میں فضل سبحان کو زیادہ نہیں جانتا مگر یہ علم ضرور ہے کہ یہ شخص کاروباری ہے اس کا کپڑے کا کام ہے ٹکٹنگ ایجینسی ہے اور چھوٹا موٹا کام ہے۔پاکستان ایمبیسی اسکول عزیزیہ کے پیرینٹس باڈی کا چیئرمین ہے۔اس نے پاکستانی اسکول میں بہتر نظم و ضبط کی کوشش کی ہے۔
شنید ہے اور جدہ کے با اعتبار لوگ کہتے ہیںکہ اسکولوں میں اٹھارہ ملین ریالز موجود ہیں جن پر سہیل علی خان اور قونصل جنرل آفتاب کھوکھر کی نظر ہے۔پچھلے دنوں سنا تھا دونوں کی تبدیلی ہو گئی ہے مگر یہ بھی ایک حربہ تھا کہ نواز شریف وہاں تھے انہیں ڈر تھا کہ ہماری شکائتیں کر دی جائیں گی۔خاص طورپر انہیں ڈر تھا کی مسلم لیگ نون کے صدر مرزا الطاف اور نور ارائیں شکائیت کر دیں گے لہذہ انہوں نے ٹرانسفر کا شور مچا دیا۔جیسے ہی میاں صاحب وہاں سے رخصت ہوئے وہ اصلی روپ میں آ گئے۔پاکستانیوں کی بد قسمتی دیکھئے جن لوگوں پر کرپشن کا الزام ہے اور سارا شہر گواہی دے رہا ہے انہیں ان کے مناصب سے ہٹایا نہیں جا رہا بلکہ انہیں ایکسٹینشن دی جا رہی ہے۔
اسکولوں کا مسئلہ بڑا پرانا ہے پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران پرکرپشن کے الزامات تھے جیسے ہی پیپلز پارٹی کی حکومت گئی وہ خاتون کمزور ہوئی مسلم لیگ نون کے لوگ اس پر جھپٹ پڑے۔نیت یہ نہیں تھی کہ کرپشن ختم ہو بلکہ مقصد یہ تھا کہ آپ نے اپنی باری پر کھا لیا اب ہماری باری ہے۔مک مکا صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں تھا باہر بھی ان ننگ وطن لوگوں کہ یہی دھندے تھے۔اس مقصد کے لئے آفتاب کھوکھر نے بڑی چالاکی سے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو استعمال کیا جو وز یر کے آنے پر سحر کامران کی کرپشن کا رونا روتے جوہ میرے ایک دوست کو جدہ کے جانی بھی کہہ کر پکارتے تھے مطلب نکلا آنکھیں آسمان پر۔ان کا یہ رومانس تبدیلی تک رہا۔یہ سوال سب کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ ایک سرکاری افسر کی حیثیت ہی کیا ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں میں دھڑے بندیاں کرواتا ہے۔مسل لیگ تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کے ٹکڑے کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مدت ملازمت کے بعد بھی اپنی کرسی پر براجماں رہتا ہے۔کوئی اسے پوچھتا نہیں۔لوگوں کو علم ہے مگر بولتے نہیں۔
قونصلیٹ کے افسران کیا اتنے ہی بہادر ہیں کہ ان کے سامنے کوئی اف نہیں کرتا۔جی ہاں بات کچھ ایسی ہی ہے ملک سے باہر لوگ چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے پیٹ پالتے ہیں انہیں ڈر ہوتا ہے کہ سفارت خانے اور قونصل خانوں کے لوگ ہماری شکائت سعودی اداروں سے کریں گے اور ہمیں جیل میں بند کر کے پاکستان روانہ کر دیا جائے گا۔ان کے سامنے ماضی کی مثالیں موجود ہیں۔لیکن وہ دور آمر کا دور تھا اور یہ جمہوری۔لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ فسطائیت اس وقت بھی تھی اور ظلم جبر اب بھی ہے اس وقت جنرل درانی ظالم تھا اور اب ایک گریڈ ١٨ یا ١٩ کا افسر۔پردیس میںحکومت پاکستان نے آپ کو پاکستانیوں کی خدمت کرنے کے لئے بھیجا ہے تم لوگ الٹا ان کی خدمت کرنے کے انہیں اغیار کے سامنے پیش کرتے ہو اور سعودی حکومت کو یہ بتاتے ہو کہ یہ مجرم ہیں پاکستان کو مطلوب ہیں۔لہذہ انہیں پاکستان بھیج دو۔خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ پاکستان کے ان بیٹوں پر ظلم کا پائی پائی کا حساب لیا جائے گا۔کسی کا اقامہ تجدید نہیں کرتے ہو کسی کو کہتے ہو کوئی پاکستان میں بیٹھا ہم سے معافی مانگے۔
کامران بٹ جیسے شخص کے سر پر ہاتھ رکھنے والو! ڈاکٹر عاصم یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم تو نہیں ہوتم! ڈرو اس وقت سے کہ آپ لوگ بھی معاشی دہشت گردی کے الزام میں دھر لئے جائو گے ۔فضل سبحان کو کس جرم میں گرفتار کروایا ؟اس کے کاغذات میں کوئی کمی ہے تو وہ دور کرائو ۔مجھے تو لگتا ہے سفیر پاکستان منظور الحق کسی خانہ پوری کے لئے موجود ہیں۔اٹھیں جدہ جائیں اور دیکھیں کیا ظلم ہو رہا ہے،ان کا کام ہے کہ وہ پہلی فرصت میں فضل کو چھڑوائیں۔کتنے لوگ اسکول کے اقامے پر ہیں؟کیا صرف فضل سبحان کا تنازل نہیں ہوا تھا۔لگتا ہے آپ نے کسی کرپشن کے شہنشاہ کے موٹے پیٹ کے نیچے پناہ لے رکھی ہے بلکل بہت دور نہیں پیٹ کے نیچے۔اللہ تعالی سے ڈرو۔آپ نے کیا ساری عمر ادھر ہی رہنا ہے۔
کیا تم اس شخص کا معاشی قتل کرنے کے بعد اس کے غصے سے بچے رہو گے؟ایسا نہیں ہو گا۔مارے جائو گے اس لئے ات خدا دا ویر ہوتاہے اور اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔مت کرو ظلم۔اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہے تو اٹھائو خدا کی قسم چلے جائو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے دروازے کے اوپر ہاتھ رکھ کر کہو کہ ہم نے ٢٠٠٢ یں پاکستانیوں کو نہیں پکڑوایا تھا ہم نے فضل سبحان کو نہیں پکڑوایا۔میری حکومت سے درخواست کے ساتھ جنرل راحیل سے بھی اپیل ہے کہ ایک بے گناہ شخص جس نے کرپشن روکنے کی کوشش کی ہے اسے ان بھیڑیوں سے نجات دلائی جائے۔
میں جدہ کی آوازوں کو جانتا ہوں کچھ کے قلم خریدے جا چکے ہیں کئیوں کو ڈر ہے کہ حسین نواز ان سے ناراض ہو گیا تو شائد اللہ تعالی ان سے سب کچھ چھین لیں گے۔ا ن کے مائع لگے کپڑے کاروبار سب کچھ۔حسین نواز نہ ہوا ان داتا۔ڈرو اور چند ریالوں کے لئے اپنے سامنے ظلم ہوتا دیکھو۔انجینئر افتخار چودھری جب پکڑا گیا تھا اس وقت بھی بھاگ گئے تھے اب زبانیں سی لو۔ذہرہ ہوٹل کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا کہ اب باری کس کی ہے۔چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیںظالمو! ظالماں دے ظلم دی اخیر ہونی ٹھاہ۔اس سے پہلے کہ اپنے بچوں کے پیٹوں میں دوزخ کی آگ اپنا اثر دکھانا شروع کر دے معصوم بچوں کے باپ کو رہا کرائو۔حسین نواز صاحب اور میاں صاحبان مجھے پورا یقین ہے کہ لوگ آپ کا نام استعمال کر رہے ہیں۔آپ ایسے نہیں ہو۔یاد ہے میاں صاحب جب میں جیل گیا تو آپ نے فون پر کہا چودھری صاحب میری وجہ سے آپ پر زیادتی ہوئی۔میرا جواب بھی یاد ہو گا۔آپ نے کہا تھا کوئی خدمت ؟اور خدمت یہ ہے کہ پاکستانیوں کو بچا لو۔لٹیرو!اس سے پہلے کہ ڈاکٹر عاصم کی طرح ہاتھ آپ تک پہنچے ان کامران بٹوں سے پیچھا چھڑا لیں۔
گندگی کا ایک لیول اس تک ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک ٹیشو پیپر جیسے اخبار کے مالک فرد کے پیٹ میں دوزخ کی آگ ڈال کر میرے بارے میں لکھوایا گیا۔کوئی سہگل نامی بندہ ہے اور ایک سہیل رانا جن کو شائد بے بے بھی نہیں جانتی ان کے اخباروں میں میرے بارے میں غلاظت چھاپی گئی۔کامران بٹ تمہیں تو گوگل کیا جائے تو گند سامنے آ جاتا ہے۔ہمارے بارے میں پاکستانی کمیونٹی کا کوئی ایک فرد ہی کہہ دے مسلم لیگ نون کا صدر پی پی پی کا سربراہ کوئی بندہ جبکہ تیری خباثتوں سے سار ا شہر آگاہ ہے۔
حضر ت علی کا قول ہے جس سے نیکی کرو اس کے شر سے بچو۔ تمہیں ہانی ابو سبع کے پاس نوکری کے لئے کیا تیرے۔۔۔۔نے بھیجا تھا میں تھا وہ۔شرم غیرت اور حیا تمہار ے پاس اتنی تو ہونی چاہئے جو قصاب کی دوکان کے نیچے بیٹھنے والے کے پاس ہوتی ہے۔حاجیوں کی خدمت تم کرو گئے؟ کمیشن مافیا کے گرو؟بات کدھر سے کدھر چلی گئی میں قونصل جنرل سے کہوں گا کہ اگر آپ اس سارے گھنائونے کھیل میں ملوث نہیں ہیں تو پاکستانی کمیونٹی پر ہاتھ رکھیں اور فضل سبحان کو چھڑوائیں پھر آپ سے بات ہو گی۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری