تحریر: ساجد حسین شاہ
ریاض،سعودی عرب
جب بھی ظلم اپنے عروج کو پہنچتا ہے تب تب مظلوموں کی جماعت میں سے ایسے رہنما جنم لیتے ہیں جو ظلم کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے آواز کو بلند کر تے ہیںاور یہی صوتی طاقت ظالم کو بے نقاب کرتی ہے ا ور عام عوام ظلم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جاتی ہے انڈیا یوم آزادی سے ہی کشمیریوں کے خون کی ندیاں بہا کر ان پر اپنے فیصلے مسلط کیے ہو ئے ہے اور دنیا کے سامنے بڑی مکا ری سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر میں دہشت گرد پنپ رہے ہیں جنھیں پا کستان کی پشت پناہی حاصل ہے انہی جھوٹے دعوں کو لے کر کئی بھارتی رہنما اقوام متحدہ میں بڑی دیدہ دلیری سے تقاریر کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھو نک دیں گے مگر ان نا دانوں کو یہ کون بتا ئے کہ آواز کے او نچے ہو نے سے اسمیں وزن نہیں پیدا کیا جا سکتا بلکہ بات تو تب بنتی ہے جب اس میں سچائی کا مادہ شامل ہو۔ ہمیشہ سے ہی جھوٹے لوگ چیخ و پکار کر تے آئے ہیں جن لوگوں کی بات میں سچائی کا عنصر شامل ہوتا ہے وہ اسے بھر پور انداز میں مکمل شواہد کے ساتھ منظر عام پر لاتے ہیں نہ کہ جھوٹے پلندوں کا سہارا لیں۔
آج بھی سورج اپنی اسی تپش اور چمک دھمک سے طلوع ہوا جس نے وادی کشمیر کے حسن میں مزید چار چاند لگائے کشمیر کی خوبصورت وادی میں حسب معمول پر ندے ویسے ہی چہچہا رہے تھے اور زندگی ویسے ہی رواں دواں تھی وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ سکول جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا اور اسکی والدہ بھی کبھی ایک بچے کا کام کریں اور کبھی دوسرے کی طرف لپک کر اسکی مدد کریں کہ اچانک بجنے والے سائرن نے سب کو چونکا دیا کیوں کہ اب سب کو باہر شناختی پریڈ کے لیے جانا تھا گھر کے تمام افراد اگھر سے نکل کر باہر لگی قطار میں شامل ہو گئے جہاں مسلح بردار افواج کے سپاہی لوگوں کی شناخت کر رہے تھے شناخت پریڈ کے ختم ہوتے ہی سب اپنے اپنے گھروں کے رخ موڑے ان سب نے بھی جلدی جلدی اپنے بستے پکڑے اور سکول جانے کی تیاری کرنے لگے لیکن وہ بضد تھا کہ مجھے نہیں جانا اب دیر ہو گئی ہے تھو ڑی دیر بعد ہی بھارتی افواج نے گھر گھر تلاشی کا سلسلہ شروع کر دیا جب کچھ فوجی اسکے گھر میں داخل ہوئے اور حسب روٹین گھر کی تمام چیزیں الٹ پلٹ کر نے لگے اسکی ماں نے آگے بڑھ کر فوجیوں کو روکنا چاہا اور ان کی منت سماجت کی تو جواب میں انہوں نے اسکی ماں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے اس سے پہلے کہ وہ مزید اس سے آگے بڑھتے لڑکا آپے سے باہر ہو گیا اور لپک کر میز پر پڑا گلدان اٹھایا
اور آرمی آفیسر پر وار کر دیا آفیسر پلٹا نہ آئو دیکھا نہ تائواور گو لی چلا دی گولی اسکے نازک سے سر کو چیرتی ہوئی گزر گئی ماں بیٹے کی طرف لپکی اور انڈین آرمی کے جوان فورا ہی گھر سے باہر نکل گئے اس ننھے شہید نے اپنی ماں کی عصمت بچانے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا اور نرالا واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات ہر روز جنم پذیر ہو تے ہیں کئی بچے یتیم ہو گئے بہت سی عصمتوں کو داغدار کیا گیا بہت سے خاندان کئی سالوں سے اپنے گمشدہ پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جنہیں بھا رتی افواج نے محظ شک کی بنیا پر حراست میں لیا تھا اور پھر ایسا غائب کر دیا ہے کہ ڈھو نڈنے سے بھی نہ ملے۔بھا رت سا ت لا کھ سے زائد بھارتی افواج مقبو ضہ کشمیر میں تعینا ت کر کے کشمیریوں کی آ واز کو دبانا چاہتا ہے اور اپنے ناپاک ارادوں کو کشمیریوں پر تھونپ دیا ہے۔ تقسیم پاک و ہند کے دوران ہی بھارت نے اپنی پو شیدہ غلاظت کو ظاہر کرنا شرو ع کر دیا تھا اور بہت سے علا قوں پر طاقت کے زور پر قبضہ جما لیا اور موقف یہ اپنایا کہ وہ علا قے مسلمان اکثر یت والے نہیں کچھ ایسی ہی صو ات حا ل کشمیر میں پیش آ ئی کشمیر میں ہندو راجہ کے سا تھ مل کر کشمیریوں کی آ زادی کو اپنی افواج کے بوٹوں تلے روندنے کی کو شش کی اور فو جی طا قت کے ذریعے وہا ںقبضہ جمالیا اسکے باوجود کہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی کشمیریوں کے لیے ہر گز یہ بات قابل قبول نہ تھی جس وجہ سے انہوں نے علم ِ بغا وت بلند کیا اور کشمیر ایک جنگی میدان کی شکل اختیار کر گیا
مظلوم کشمیری بھائیوں کا ساتھ دینے کے لیے بہت سے قبائلی علا قہ جات سے لوگ کشمیر پہنچے اور انکے شانہ بشانہ اس جنگ میں شر یک ہو ئے کچھ حصہ تو آزاد کر والیا گیا جو آجکل آزاد کشمیر کے نام سے مشہور ہے یہ جنگ تو شاید تب ہی ختم ہو تی جب مکمل بھارتی افواج کا انخلاء کشمیر سے ہو جا تا مگر اس وقت کے بھا رتی حا کم جو اہر لال نہرو نے اپنی شکست کے خو ف سے اقوام متحدہ کا دروازہ جا کھٹکھا یا جہاں یہ قرار داد منظور کی گئی کہ بھا رت کشمیر میں ریفرنڈم کر وا ئے گا اور کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ کر نے کے حق دار ہوں گے جنگ تو تھم گئی مگر کچھ ہی عر صہ بعد بھا رت کے تیور بدل گئے اور اس نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہو ئے مز ید افواج وہاں تعینات کر دی یاد رہے کہ یہ وہی سلا متی کو نسل ہے جسکہ مستقل ممبر بننے کا بھا رت خو اہشمند ہے کیا یہ اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف نہیں کہ ایک ایسے ملک کو ویٹو پاور دے دی جا ئے جو پچھلے سڑ سٹھ سا لوں سے سلا متی کو نسل کی اس قرار داد کو جو تے کی نو ک پر رکھے ہوئے ہے پاکستان اور بھارت اسی محاذپر تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں مگر بھا رت کی ہٹ دھر می ہمیشہ سے اس مسئلے کے حل کر وا نے کی راہ میں رکا وٹ رہی ہے۔ حکومت پاکستان ہمیشہ سے کشمیر کے مؤقف پر ڈٹی رہی ہے اور اس بناپر ایک کشمیر کمیٹی کا وجودبھی عمل میں آیا جو آ ج تک کو ئی خا ص تیر نہ چلا سکی اور کمیٹی کہاں ہے اسکی کار کردگی کیا ہے کو ئی کچھ نہیں جانتا اپنی پہلی حکومت میں میاں نواز شر یف نے کشمیریوں سے اپنی محبت کا اظہار کر تے ہوئے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا اور پچھلے تئیس برس سے ہم یہ دن یوں ہی کشمیریوں کے سا تھ یکجہتی کے طور پر منا تے اور پا کستان میں عام تعطیل ہو تی ہے پا کستا نی عو ام کے دلوں میں مقبو ضہ کشمیر کے لو گوں کے لیے جو جذبات اور محبت ہیں اس کے بیان کے لیے ایک طو یل وقت درکار ہے کیو نکہ مقبو ضہ کشمیر میں لا کھوں مسلمانوں کو اس پا داش میں شہید کیا گیا کہ وہ اپنے حق خود ارادیت کے لیے آواز کیوں بلند کر رہے ہیں اور ہزاروں کشمیر ی بیٹیوں کی آبرو ریزی کی گئی جسے پاکستان میں بسنے والے کر وڑوں مسلمان کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ میں مقبو ضہ کشمیر کے باسیوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے دیگر ممالک کی طرح دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ لینے کی بجاے اپنے سرزمین پر رہنے کو فوقیت دی ہے۔ جنت نہ کبھی کا فر کو ملی ہے نہ ملے گی۔
تحریر: ساجد حسین شاہ
ریاض،سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631