کرکٹ جنٹل مین کا کھیل کہلاتا ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امپائر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اس چیز کا اطلاق صرف بین الاقوامی کرکٹ پر نہیں بلکہ گلی محلے میں کھیلی جانے والی کرکٹ میں بھی ہوتا ہے۔
لیکن اب برطانیہ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امپائروں کی نصف تعداد کو کھلاڑیوں کی جانب سے گالم گلوچ اور غلط رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یونیورسٹی آف پورٹ سمتھ کی اس تحقیق کے مطابق امپائروں کے فیصلوں پر اعتراض کے بعد ان کے خلاف شدید ردعمل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک برطانوی امپائر نے بی بی سی ریڈیو کے پروگرام ‘سٹمپڈ’ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امپائر کے فیصلوں سے روگردانی، غلط زبان، توہین آمیز رویہ، حتیٰ کہ ان کی طرف تھوکنے تک کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘میرے خیال سے یہ سب سے نفرت انگیز اور کراہت آمیز چیز ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ چیز کتنی عام ہے، تو انھوں نے کہا: ‘ہر میچ میں۔ ہر میچ میں گالیاں پڑتی ہیں اور میری طرف تھوکا جاتا ہے۔’
کیا آسٹریلیا میں بھی ایسا ہوتا ہے؟
میتھیو ہال پرتھ میں ویسٹرن آسٹریلیا کرکٹ ایسوسی ایشن کے امپائروں کے مینیجر ہیں اور وہ 11 برس سے امپائرنگ کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘آسٹریلیا کی کمیونٹی کرکٹ میں بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔ تاہم میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس سے اونچے درجے کی کرکٹ میں بھی ایسا ہوتا ہو گا۔ میں نے اپنے امپائروں سے بھی پوچھا۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ گالم گلوچ تو ہوتی ہے لیکن اتنی نہیں۔’
انھوں نے ایک واقعے کا ذکر کیا جس میں امپائروں کو روشنی کم ہونے کے باعث کھیل روکنے پر کھلاڑیوں کی جانب سے جارحانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انھوں نے کہا کہ کھلاڑی نوجوان اور پرجوش ہوتے ہیں اور وہ ٹی وی پر اپنے سینیئر کھلاڑیوں کا رویہ دیکھتے ہیں اور ان سے اثر قبول کرتے ہیں۔
انڈیا سے چارو شرما نے کہا کہ ‘امپائر کا کام ہی ایسا ہے کہ وہ ہر کسی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ انڈیا میں نوجوان عمر اور رتبے کی قدر کرتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں، اس لیے وہاں امپائر نسبتاً محفوظ ہوتے ہیں۔ لیکن ٹی وی پر کھلاڑیوں کو دیکھ کر نوجوان اثر قبول کر رہے ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘اب بہت کم لوگ ایسے ہیں جو امپائر بننا چاہتے ہیں۔ امپائر کی کوئی عزت نہیں۔’
آسٹریلیا سے ‘سٹمپڈ’ کے میزبان جم نیشول نے کہا کہ ‘چھوٹے لیول کی کرکٹ پر ڈی آر ایس کا بھی اثر ہوا ہے اور اب وہاں بھی امپائروں کے فیصلوں پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ کھلاڑی امپائر کے فیصلے کے بعد ٹی کا نشان بنا کر امپائر کے فیصلے کو ریفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح امپائروں کے فیصلوں پر زیادہ سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔’
ایم سی سی سرخ اور زرد کارڈ متعارف کروانے کے بارے میں سوچ رہی ہے، کیا اس سے کچھ اثر پڑے گا؟
جم نے کہا کہ ‘میرے خیال سے کرکٹ میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ امپائر اور کپتان درمیان میں آ کر بیچ بچاؤ کروا دیتے ہیں۔’