تحریروتحقیق: اصغر علی مبارک
اسلام آباد سے کورونا وائرس راولپنڈی بھی پہنچ گیا ھے ،اصغر مال میں امام بارگاہ انگت پورہ بلتستانی کے سامنےرہائش پذیر58سالہ کلثوم بی بی اور اس کے شوہر63سالہ حبیب مہدی کو بے نظیر بھٹو ہسپتال کے آئسولیشن واڈر میں منتقل کردیا گیا ہے
اسلام آباد ائیر پورٹ سے گزشتہ روز برادرم ڈاکٹر اظہر علی اور انکے ساتھ دیگر 35 افراد کو سعودی عرب عمرہ کی سعادت کی ادائیگی کے لیے خدا حافظ کرنے کے لیے جانے کااتفاق ہوا اور خوش قسمتی سے سعودی عرب عمرہ زائرین کو جدہ لے کر جانے والی کویت ائیر لائن کی آخری فلائٹ ثابت ہو ئی کیونکہ اس کے بعد سعودی حکومت نے کورونا وائرس کی پاکستان میں تصدیق کے بعد عمرہ گروپوں کی طرف سعودیہ میں داخلے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اسلام آباد ائیرپورٹ پر آنے جانے وال مسافروں کو دی جانے والی ناکافی سہولیات دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ مسافروں کو آگاہی فراہم کرنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں سب کچھ اللہ توکل ہی چل رہا ھےپاکستانی حکومت کی جانب سے کیے گئے انتظامات کے دعوے کی جھلک تک نظر نہیں آتی اور ابھی تک ھم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں جبکہ پاکستان کے ائیر پورٹ اہلکاروں کی غفلت اور لاپروائی سے کورونا وائرس پاکستان میں داخل ہو گیا ہےجناب ڈاکٹر ظفر مرزا معاون خصوصی برائے صحت کی صلاحیتوں سے انکار نہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے جو حفاظتی اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا اس پر عمل درآمد کیا جاتا تو پاکستان کورونا سے بچا جاسکتا تھا جو مسافر ابھی تک اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں انکو نجی شعبہ کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ھے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری سطح پر دو ماہ بعد بھی کوئی ہسپتال ایسا نہیں جہاں علاج ھوسکے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کورونا وائرس اسلام آباد میں داخل ہو گیا اور پمز ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں گلگت بلتستان کے ایک شخص کو جو بیماری کی حالت میں ایک ماہ راولپنڈی میں رہا اس کو تشویش ناک حالت میں اسلام آباد میں منتقل کردیا گیا ہے آزاد کشمیر کے2005 قیامت خیز زلزلہ کے دوران مجھے بطور چیف رضا کار اس آئسولیشن وارڈ میں ایک ماہ خدمات انجام دینے کا تجربہ رہا ان دنوں کوہستان میں تشنج کی وبا پھیل جانے سے پمز میں ہیلی کاپٹر سے لائے گئے درجن بھر افراد ہلاک ہو گئے تھے اور آئسولیشن وارڈ کے ڈارک روم میں مریضوں کے منہ سے مشین کے ذریعے مواد نکالنےکےباوجود بدقسمتی سے کسی کو بھی بچا نہ جاسکا یہ بات لکھنے کامقصدیہ ھےکہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کیلئےجدید ہسپتال ناگزیر ہے اسلام آباد میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں جہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کا علاج کیا جاسکے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی تصدیق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کردی ہےڈاکٹر ظفر مرزا نے ک دو کیسز کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘دونوں کیسز کا کلینیکل اسٹینڈرڈ پروٹوکولز کے مطابق خیال رکھا جارہا ہے ‘حالات کنٹرول میں ہیں اور گھبرانے کی ضرورت نہیں۔’کورونا وائرس 27 فروری کی سہ پہر 3 بجے تک دنیا کے 50 ممالک میں پھیل چکا تھا اور تمام ممالک میں مریضوں کی تعداد بڑھ کر 82 ہزار 170 ہوچکی تھی۔دنیا کے 50 ممالک میں سے تقریباً 15 ممالک میں 27 فروری کی سہ پہر تک کورونا وائرس کے صرف ایک ایک مریض کی تصدیق ہوئی تھی اور ان ممالک میں افغانستان، جارجیا، اسٹونیا، سوئٹزرلینڈ، الجزائر، برازیل، مصر، یونان اور کمبوڈیا سمیت دیگر ممالک شامل تھے۔
پاکستان سمیت متعدد ممالک میں 2ی فروری کی سہ پہر تک کورونا وائرس کے صرف 2،2 مریضوں کی تصدیق ہوئی تھی اور اسی طرح کچھ ممالک میں 3، کچھ میں 5 اور بعض میں ایک درجن کے قریب اور کچھ میں 2 سے 3 درجن مریضوں کی تصدیق ہوئی۔چین، جنوبی کوریا، اٹلی، جاپان، ایران، سنگاپور، ہانگ کانگ، امریکا، تھائی لینڈ اور بحرین وہ ممالک ہیں جہاں28 فروری تک سب سے زیادہ کورونا وائرس کے مریضوں کی تصدیق ہوئی تھی۔
چین میں سب سے زیادہ 78 ہزار 487 مریضوں کی تصدیق ہوئی تھی جب کہ باقی تقریباً ساڑھے 4 ہزار مریضوں کی دنیا کے دیگر 49 ممالک میں موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ل28 فرور تک جنوبی کوریا میں تقریباً 1600 مریضوں کی تصدیق ہوئی جب کہ اٹلی میں 453، جاپان میں 189 اور ایران میں 141 مریضوں کی تصدیق ہوئی تھی۔
دسمبر 2019 سے لے کر28 فروری 2020 تک دنیا بھر میں کورونا وائرس سے مجموعی طور پر 2 ہزار 804 انسان ہلاک ہوچکے تھے جن میں سب سے افراد چین میں ہلاک ہوئے، 22 اموات کے ساتھ ایران دوسرے اور 13 ہلاکتوں کے ساتھ جنوبی کوریا تیسرے نمبر پر ہے۔کورونا وائرس کے تیزی سے دنیا بھر میں پھیلنے سے لوگوں میں خوف پھیل گیا ہے اور ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مذکورہ وائرس سے جان چھڑانا ممکن نہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔کورونا وائرس پر نظر رکھنے کے لیے عالمی ادارہ صحت اور امریکی صحت کے اداروں کے تعاون سے بنائے گئے آن لائن میپ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کے ظاہر ہونے سے لے کر اب تک کورونا وائرس کے 32 ہزار سے زائد مریض صحت یاب ہو چکے ہی، عالمی ادارہ صحت اور امریکی صحت سے متعلق اداروں کے تعاون سے چلنے والے آن لائن میپ سینٹر فار سسٹمز سائنس اینڈ انجنیئرنگ کے مطابق دنیا بھر میں اب تک کورونا وائرس کے متاثرہ 32 ہزار 898 مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ افراد چین میں صحت یاب ہوئے، تاہم ایران میں بھی اب تک 49 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ایران کے علاوہ سنگاپور، تھائی لینڈ، جاپان، ویتنام، جرمنی، برطانیہ، امریکا، بھارت، اٹلی، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، روس اور بیلجیم سمیت تقریبا دنیا کے ہر ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد علاج کے بعد صحت یاب ہو چکے ہیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے بعد صحت یاب ہونے سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ اگر مریض بروقت علاج کے لیے معالجوں سے رابطہ کرے تو کچھ ہی دن کے علاج کے بعد وہ وائرس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں تصدیق کیے گئے کورونا وائرس کے 2 مریضوں کے حوالے سے بھی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ متاثرہ دونوں مریضوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔’وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے 26 فروری کی شب کو بتایا تھا کہ پاکستان میں رپورٹ ہونے والے ‘دونوں کیسز کا کلینیکل اسٹینڈرڈ پروٹوکولز کے مطابق خیال رکھا جارہا ہے اور دونوں افراد کی حالت مستحکم ہے۔’انہوں نے کہا تھا کہ ‘حالات کنٹرول میں ہیں اور گھبرانے کی ضرورت نہیں۔’کراچی کا یحییٰ جعفری اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک گروپ میں بذریعہ ہوائی جہاز ایران کی زیارتوں کے لیے 6 فروری کو تہران پہنچا اور 20 فروری کو واپس کراچی پہنچ گیا ۔ 25 فروری کو اسے نزلہ ، زکام اور بلغم والی کھانسی کی شکایات ہوئیں ۔ یہ 26 فروری کو آغا خان اسپتال میں داخل ہوگیا ۔ 27 فروری کی شام کو ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز حکومت سندھ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ یحییٰ جعفری میں کورونا وائرس تشخیص ہوا ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی جاری کردہ رپورٹ میں لیبارٹری رپورٹ کے سامنے لکھا ہوا ہے کہ رپورٹ کا انتظار ہے ۔کراچی کا 22 سالہ نوجوان ایران سے 20 فروری کو آیا تھا، نوجوان ایران میں ہی وائرس سے متاثر ہوا اور وہاں ان میں علامات ظاہر ہوئی تھیں۔’ نجی ہسپتال میں نوجوان اوران کے اہل خانہ کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے.ایران میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 19 ہوچکی ہے، جو چین کے بعد سب سے زیادہ اموات ہیں۔ایران میں اب تک کورونا کے 139 کیسز کی تصدیق کی جاچکی ہے تاہم صدر حسن روحانی ایرانی شہروں کو فوری طور پر قرنطینہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ ایران میں وائرس کورونا3 پانے میں ایک سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔گزشتہ روز ایران کے نائب وزیر صحت اور ایک رکن پارلیمنٹ میں بھی کورونا3 وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔وزارت صحت کے ترجمان قیانوش جہانپور نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ غیر ضروری سفر بالخصوص کورونا سے ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں قُم اور گیلان کے سفر سے گریز کریں۔ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے بھی بیان میں نوجوان میں کورونا وائرس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘متاثرہ شخص کو فوری طور پر آئسولیشن وارڈ منتقل کردیا گیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘نوجوان کو ایئرپورٹ پر اسکین نہیں کیا گیا تھا، ایئرپورٹ صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں جہاں فوری طور پر سرویلنس بڑھانے کی ضرورت تھی’۔ اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں کے آئسولیشن وارٹ میں کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو داخل کرادیا گیا اور اس کی تصدیق کی گئی۔این آئی ایچ کے 33ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شخص کاروباری ہیں اور ایران آتے جاتے رہتے ہیں اور چند دن قبل ہی ایران سے آئے تھے لیکن صحت کی خرابی کے باعث راولپنڈی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی طبیعت خراب ہوئی تو وہ پمز آئے جہاں انہیں آئسولین وارڈ میں رکھا گیا۔ترجمان پمز کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص سکردو سے اسلام آباد آئے اور انہوں نے ایک ایک ماہ پہلے ایران کا سفر کیا تھاپاکستان نے ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر اپنی سرحد عارضی طور پر بند کردی تھی اور تفتان اور سرحدی علاقے میں انتظامات کیے گئے ہیں۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنے تازہ بیان میں خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز اب چین سے باہر زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم نے جنیوا میں سفارتکاروں کو بتایا کہ ‘گزشتہ روز وائرس کے جتنے نئے کیسز چین کے باہر رپورٹ ہوئے ان کی تعداد پہلی بار چین سے زیادہ تھی۔’اقوام متحدہ کی ہیلتھ ایجنسی کے مطابق چین میں گزشتہ روزکورونا وائرس کے 411 نئے کیس سامنے آئے جبکہ اس سے باہر یہ تعداد 427 رہی۔دنیا بھر کی حکومتیں اٹلی، ایران اور جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کی روک تھام کی کوششیں کر رہی ہیں۔کورونا وائرس گزشتہ برس کے آخر میں چین کے صوبے ہوبے کے دارالحکومت ووہان میں سامنے آیا تھا جس کے بعد جنوری میں مزید کیسز سامنے آگئے تھے اور چین نے سخت اقدامات کیے تھے۔دنیا کے سب سے بڑے آبادی کے حامل ملک میں شروع ہونے والے اس مہلک وائرس سے مزید 71 ہلاکتیں ہو گئی ہیں جس سے صرف چین میں اس وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 2ہزار 633 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 77 ہزار سے زائد افراد اب تک اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔چین کے بعد سب سے زیادہ 977 کیسز جنوبی کوریا سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں 10 افراد جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں، کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد میں ایران دوسرے نمبر پر ہے جہاں 19 شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں۔کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ازکم 2 ہزار 700 ہوچکی ہے اور 81 ہزار سے زائد متاثر ہوئے ہیں۔ورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل
Coronaviridae
کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کے سبب رواں سال جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں شیڈول اولمپکس کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے اور عالمی اولمپکس ایسوسی ایشن اس معاملے پر آئندہ 2ماہ میں حتمی فیصلہ کرے گی۔کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے آسٹریلوی حکومت کی جانب سے عائد سفری پابندیوں کی وجہ سے چین کی جمناسٹکس ٹیم آئندہ ہفتے میلبورن میں ہونے والے ورلڈ کپ جمناسٹکس 2020 سے باہر ہوگئیرپورٹ کے مطابق چین سے آنے والے غیرملکی شہرآسٹریلیا میں عائد سفری پابندیوں میں توسیع کے باعث چین20 سے 23 فروری تک جاری رہنے والے ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی جس میں رواں برس کے ٹوکیو اولمپکس کے کوالیفائنگ پوائنٹس بھی شامل ہیں۔چین کے صوبے ہوبے کے دارالحکومت ووہان سے شروع ہونے والے اس مہلک وائرس سے دنیا کے سب سے بڑے آبادی کے حامل ملک میں مزید 71ہلاکتیں ہو گئی ہیں جس سے صرف چین میں اس وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 2ہزار 633 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 77 ہزار سے زائد افراد اب تک اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔چین کے بعد سب سے زیادہ اہم 8کیسز جنوبی کوریا سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں 10افراد جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں۔اب مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ساتھ ساتھ امریکا میں بھی اس وائرس کے پھیلنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جس کے بعد رواں سال شیڈول ٹوکیو اولمپکس کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔انٹرنیشنل اولمپکس ایسوسی ایشن میں سب سے طویل مدت تک رکن رہنے کا اعزاز رکھنے والے ڈک پاؤنڈ نے کہا کہ ہمارے پاس 24جولائی سے شروع ہونے والے اولمپکس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے مزید 2ماہ کا وقت ہے اور ہمیں امید ہے کہ ڈک پاؤنڈ آئی او سی کے موجودہ صدر باک سے بھی طویل عرصے سے اولمپکس ایسوسی ایشن کے رکن ہیں جہاں وہ 1978 میں انٹرنیشنل اولمپکس ایسوسی ایشن کے رکن بنے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں مئی تک فیصلہ کرنا ہو گا کہ اولمپکس کا انعقاد کرانا ہے یا نہیں کیونکہ ہمیں کھانے، سیکیورٹی، کھلاڑیوں کی رہائش، اولمپک ولیج، ہوٹلز اور میڈیا کے لیے انتظامات سمیت متعدد معاملا کی دیکھنے ہوں گے۔ٹوکیو اولمپکس میں تقریباً 11ہزار ایتھلیٹس کی شرکت متوقع ہے اور 25اگست سے شروع ہونے والے پیرالمپکس میں 4ہزار 400ایتھلیٹس کی شرکت کا امکان ہے۔اس سے قبل کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے اقدامات کے تحت آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے عائد سفری پابندیوں کی وجہ سے چین کی۔جمناسٹکس ٹیم میلبورن میں ہونے والے ورلڈ کپ جمناسٹکس 2020 سے باہر ہوگئی تھی۔چین کی ٹیم 20 سے 23 فروری تک جاری رہنے والے ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی تھی جس میں رواں برس کے ٹوکیو اولمپکس کے کوالیفائنگ پوائنٹس بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ 1896 میں شروع ہونے والے جدید اولمپکس کو صرف جنگ کے دنوں میں منسوخ کیا گیا اور چند مواقع پر مختلف ملکوں کے بائیکاٹ کے باوجود اولمپکس منعقد ہوئے۔
اس سے قبل آخری مرتبہ جنگ عظیم دوم کے باعث 1940 میں اولمپکس منسوخ کیے گئے تھے اور اس وقت بھی اولمپکس کا انعقاد ٹوکیو میں ہی ہونا تھا۔
اولمپکس کو ایک سال کے لیے ملتوی کرنے کے سوال پر ڈک پاؤنڈ نے کہا کہ اس کا انحصار جاپان پر ہے کہ کیا وہ مزید ایک سال التوا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں یا نہیں۔
خیال رہے کہ جاپان اب تک اولمپکس کے انعقاد کے سلسلے میں کم از کم 12.6ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے لیکن سرکاری آڈٹ رپورٹ کا کہنا تھا کہ اولمپکس کی تیاری پر اس سے بھی دگنی رقم خرچ کی گئی ہے۔جمناسٹکس آسٹریلیا کی چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) کیٹی چلر نے کہا کہ ’ یہ چند ہفتے ہم سب کے لے بہت چیلنجنگ رہے ہیں لیکن چینی جمناسٹس اور حکام سے زیادہ نہیں جو میلبورن آنے کی تیاریاں کررہے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ میں چائنیز جمناسٹکس ایسوسی ایشن اور اس کے صدر سے رابطے میں ہوں جو مجھے آگاہ کرتے رہے ہیں کہ ان کا پورا وفد ٹھیک ہے اور ان میں انفیکشن کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں، اس کے باوجود ہم سب کو آسٹریلوی حکومت کی سفری پابندیوں کا احترام کرنا ہے۔ورلڈ کپ ویب سائٹ پر جاری فہرست میں شامل 12 چینی شہریوں میں چار مرتبہ عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے ژانگ چینگ لانگ بھی شامل ہیں جنہوں نے2012 لندن اولمپکس میں سونے کا تمغہ اور ریو گیمز میں کانسی کا تمغہ بھی جیتا تھا۔
ژانگ چینگ لانگ کے ساتھ ریو گیمز میں حصہ لینے والے یو ہاؤ اور لیو یانگ سمیت سابق مینز آل راؤنڈ ورلڈ چیمپئن ژاؤ روٹینگ بھی ورلڈ کپ میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔دیگر کھیلوں کے چینی ایتھیلیٹس کو اولمپک کی تیاریوں میں بھی مشکلات کا سامنا ہوا ہے۔جنوری کے آخر میں اولمپک کوالیفائنگ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی چینی وومن فٹ بال ٹیم اور عملہ آسٹریلیا پہنچنے کے بعد قرنطینہ کی پابندیوں کے باعث تقریباً 2 ہفتوں تک برسبین کے ہوٹل تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ کورونا وائرس سے اب تک 15 سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق چین کے وسطی صوبے ہوبے سے ہے جبکہ وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 66 ہزار سے زائد ہوگئی ہےپاکستان میں 26 فروری کی شب کو کورونا وائرس کے 2 کیسز کی تصدیق ہونے کے بعد لوگ دھڑا دھڑ وائرس سے بچاؤ کی تدبیریں تلاش کرنے لگ گئے ہیں۔
پاکستان سے قبل مذکورہ وائرس گزشتہ 3 ماہ سے دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ہوا تھا اور ہر گزرتے دن کسی نہ کسی ملک میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تصدیق ہو رہی تھی۔صرف ایک ہفتے کے دوران دنیا کے تقریباً 20 ممالک نے اپنے ہاں پہلے کورونا وائرس کیس کی تصدیق کی جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔پاکستان کے پڑوسی ممالک ایران، افغانستان اور بھارت میں پہلے ہی کورونا وائرس کے مریضوں کی تصدیق ہو چکی تھی۔