تحریر: محمد صدیق پرہار
اقوام متحدہ کے ٧٠ ویں اجلاس کے موقع پرامریکی صدر باراک اوباما نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیںجمہوریت کاتحفظ کرناہوگا۔جبکہ اقوام متحدہ کے اصولوںنے جمہوریت کوفروغ دینے میںمدددی ہے۔امریکی صدرکی طرف سے جمہوریت کے تحفظ کاعزم بظاہراچھی بات ہے ۔ تاریخی حقائق اوباما کی اس خواہش کوجھٹلارہے ہیں۔ تاریخی حقائق سامنے رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ نے اب تک کہاں کہاں جمہوریت کی حمایت کی ہے اور کہاں کہاں آمریت کی سرپرستی کی ہے۔زیادہ دورنہ جائیں گذشتہ پندرہ سال کاریکارڈچیک کرکے دیکھ لیا جائے امریکہ جمہوریت کا کتناحامی ہے۔ انہوں نے جمہوریت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اصولوں کی بات کی ہے۔یہ اقوام متحدہ کے اصول بھی حسب ضرورت بدلتے رہتے ہیں۔ عملاً دنیاکے مختلف ممالک میں جمہوریت کے حوالے سے اس کے اصول بھی امریکہ کی طرح یکساں نہیں ہیں امریکہ اور اقوام متحدہ جمہوریت کے اتنے ہی خیرخواہ ہیں تووہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پ رعمل کرتے ہوئے اجلاس کے ختم ہونے کے بعد کشمیریوںکوحق خودارادیت دیں۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی کامیابیوں پرغوروفکرکرنے کی ضرورت ہے اورہماری منزل ابھی دورہے۔اقوام کی کامیابیاں کیاہیں اوران پرغورکرنے سے کیاحقائق سامنے آتے ہیں اس کے لیے ہمیں تاریخ کامطالعہ کرناہوگا۔جب تک کشمیریوںکوحق خودارادیت نہیں مل جاتا تب تک اس کی کامیابیاں ادھوری ہیں۔وہ کہتے ہیں ہم کئی بڑی اقوام کوتباہ ہوتادیکھ رہے ہیں۔کیونکہ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیںجب وہ سب کوساتھ لے کرامن کی راہ تلاش کرتی ہیں۔امن کی خواہش کرنے اورامن کے قیام کے لیے کوششیںکرنے میں بہت فرق ہے۔ نائن الیون کے بعدامریکہ نے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرامن راہ تلاش کی ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔افغانستان اور عراق میں وحشیانہ بمباری اورپاکستان میں آئے روزبلکہ ایک ایک روزکئی کئی ڈرون حملے کرکے امریکہ امن کی راہ تلاش کرتا رہا ہے۔ان کوسامنے رکھنے سے امن کی راہ کی تلاش کی حقیقت معلوم کی جاسکتی ہے۔
امریکی صدر کئی بڑی اقوام کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں صرف وہی قومیں تباہ ہوتی ہیں جو دوسری قوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتی ہیں۔اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات سے روگردانی کرتی ہیں۔ امریکی صدرکاکہنا ہے کہ صرف متحد ہوکر ہم دنیا سے غربت ختم کرسکتے ہیں۔ لیکن دنیا میں لوگوں کے خوف کا فائدہ اٹھایاجارہا ہے۔ دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دینے ،ایٹمی اسلحہ کے ذخائر میں اضافہ اوراس کے استعمال کرنے، کمزور معیشتوں کو سودی قرضوں اور کڑی سے کڑی شرائط میں جکڑنے سے غربت میں اضافہ توہوجاتاہے کمی نہیں ہوتی۔ جیسے میں کہوں ویسے کرتے جائوکی پالیسی سے قوموں کو متحد نہیں کیا جاسکتا۔ متحدہو کر غربت کاخاتمہ کرنے کے لیے امریکہ اورعالمی مالیاتی اداروںکواپنی پالیسیوںکوازسرنواس طرح ترتیب دینا ہوگا کہ اس سے کمزور معیشتوں پر مثبت اثرات پڑیں اوران کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں۔
دنیا میں لوگوں کے خوف کافائدہ کون اٹھارہا ہے۔ اس کی تفصیل میںجانے کی ضرورت نہیں اس بات سے سب اچھی طرح واقف ہیں۔وہ کہتے ہیںکوئی قوم اورملک دہشت گردی اورمالی مسائل سے بچا ہوا نہیں ہے اورامریکہ چاہے کتناہی طاقتورہوامریکہ سمیت دنیاکاکوئی ملک اکیلے دنیاکے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ یہ بات تودرست ہے کہ کوئی ملک تنہادنیا کے مسائل حل نہیں کرسکتا زمینی حقائق یہ بات بھی بتاتے ہیں کہ اکیلاملک دنیاکے مسائل میں اضافہ ضرورکرسکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کوئی قوم اورملک دہشت گردی اورمالی مسائل سے بچاہوانہیں ہے۔یہ بھی امریکی اورعالمی مالیاتی اداروںکی پالیسیوںکاہی نتیجہ ہے۔یہ سب یہی چاہتے ہیں۔تاکہ ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی رہے جونہ کبھی ہوئی ہے اورنہ ہی ہوگی۔
امریکی صدرکی اس بات کہ امریکہ سمیت کوئی ملک اکیلے دنیاکے مسائل حل نہیں کرسکتا کوایک او رزاویے سے دیکھاجائے توامریکی صدراپنی بے بسی کااعتراف بھی کررہے ہیں کہ وہ دنیا کی سپرپاورہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے۔اوباماکاکہنا ہے کہ روس کے خلاف پابندیاں سردجنگ کی طرف لوٹنے کی عکاس نہیں۔کبھی اس ملک کے خلاف پابندیاں اورکبھی اس ملک کے خلاف۔ان عالمی پابندیوںکابھی کوئی معیاراوراصول وضابطہ ہوناچاہیے کہ پابندیاں کب اورکن حالات میں لگائی جائیں گی۔یہ معیار، اصول وضابطے دنیاکے تماممالک کے لیے یکساںہوں۔ایسا نہ ہوجن مخصوص حالات میں ایک ملک کے خلاف پابندیاںلگائی جائیں ایسے ہی مخصوص حالات میں دوسرے ملک کوکھلی چھٹی دے دی جائے جیسا کہ اب تک ہوتارہا ہے۔امریکی صدرکہتے ہیں کہ عراق میں ہم نے سبق سیکھا کہ طاقت اورپیسے کے زور پر دوسرے ملک میں امن قائم نہیں کیاجاسکتا۔
کیونکہ علاقوں پ رقابض ہونا اب طاقت کی علامت نہیں رہی اب قوموں کی طاقت کے مرکز وہاں کی عوام ہوتے ہیں۔یہ جملہ کہتے ہوئے اوباما نے الفاظ تبدیل کرلیے ہیں۔ انہیں کہناچاہیے تھا کہ طاقت کے زور پر کسی دوسرے ملک پر قبضہ نہیں کیاجاسکتا۔ طاقت کے زور پر کسی دوسرے ملک کواب شکست نہیں دی جاسکتی۔ انہیں یہ اعتراف بھی کرناچاہیے تھا کہ طاقت کے زور پر کسی دوسرے ملک کی عوام پرحکومت نہیں کی جاسکتی۔ امریکہ کویہ سبق عراق سے بھی ملا ہے اور افغانستان سے بھی۔اسے یہی سبق بھارت کو بھی سمجھا دیناچاہیے کہ طاقت کے زور پر کسی ملک ،کسی ریاست، کسی علاقے پرقبضہ زیادہ دیر برقرار نہیں رکھاجاسکتا۔اس لیے وہ طاقت کے زور پر کشمیریوں پرتسلط ختم کرکے انہیں حق خودارادیت کاموقع دے۔وہ یہ بات اسرائیل کوبھی بتادے کہ وہ طاقت کے زور پر فلسطین پرقبضہ ختم کرکے آئندہ فلسطینیوں کواپنی بربریت کانشانہ نہ بنائے۔
امریکہ نے عراق سے سبق سیکھ لیا ہے تواس پرعمل بھی کرے دنیامیں جہاں جہاں بھی اس نے اپنی فوج بھیج رکھی ہے وہ سب واپس بلالے۔وہ یہاںبھی اعتراف کررہے ہیں کہ ہم طاقت کے استعمال کے بعدبھی ناکام رہے ہیں۔امریکی صدریہ بات تسلیم کررہے ہیں کہ قوموں کی طاقت کامرکزوہاں(ملک ) کے عوام ہوتے ہیں۔ توجن ممالک ،جن علاقوںپردوسرے ملکوں نے قبضہ کررکھا ہے۔جن ملکوںمیں غیرملکی افواج طاقت کے زورپرموجودہیں وہاں کی عوام کی طاقت کوبھی تسلیم کیاجائے اورانہیں بھی ان کے آزادانہ جینے اوررہنے کاحق دیاجائے۔ان کاکہنا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ عارضی نہیں ہے بلکہ یہ معاہدہ بین الاقوامی نظام کی مضبوطی کاعکاس ہے۔اس معاہدہ سے بین الاقوامی نظام کی مضبوطی کی عکاسی ہوتی ہے یاایرانی قوم کی مضبوطی کاپتہ چلتا ہے یہ وقت آنے پرمعلوم ہوجائے گا۔
اوباماکاکہنا ہے کہ داعش نے اسلام کاچہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ کوشش پہلی بارنہیں ہوئی۔دہشت گردی کواسلام سے جوڑکربھی یہی کوشش کی جاچکی ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلمان ممالک میں لڑکر بھی یہی کوشش کی جاچکی ہے۔امریکی صدرکی یہ بات تودرست ہے کہ اسلام ہمدردی اور تحمل کادرس دیتا ہے۔ہمدری مظلوم سے ہوتی ہے ظالم سے نہیں۔ ظالم کوظلم کرنے سے روک کراس سے ہمدری ضرورکی جاسکتی ہے۔دراصل یہ بات کرکے امریکی صدرمسلمان ملکوںکوکہنا چاہتے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تحمل سے کام لیں۔جلدبازی، اشتعال انگیزی،ردعمل سے گریز کریں۔ ہماری کارروائیوں کو تحمل سے برداشت کریںاس پرکوئی ردعمل ظاہرنہ کریں۔ اسلام تو اور بھی بہت سے درس دیتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا کو لاحق خطرات سے آگاہ ہیں۔عالمی طاقتوں کی طاقت کے استعمال اوردوسرے ملکوں کی عوام کوطاقت کے زورپرمغلوب کرنے کی پالیسیاں جاری رہیں توان خطرات کوحقیقت کاروپ دھارنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
دنیا کو لاحق خطرات کیسے ہیں اور یہ کب کب اورکہاں کہاں نمودا رہوں گے یہ سب اوباما اچھی طرح جانتے ہیں۔ دنیا کو لاحق یہ خطرات کس سے اورکس نوعیت کے ہیں یہ بھی اوبامااچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہریوں کی حفاظت کویقینی بنائیں گے۔جس طرح افغانستان ،عراق، شام، لبنان وغیرہ کے شہریوں کی حفاظت کویقینی بنایاگیا ہے۔امریکہ پچاس ممالک کے ساتھ مل کراقوام متحدہ کی امن فوج میں اضافہ کرے گا۔اوباماکاکہنا ہے کہ شام کے صدربشارالاسدنے اپنے ہی لوگوں پربم گراکرقتل عام کیا۔امریکہ یہی آرڈرپاکستان کوبھی دیتا رہا ہے۔اب دونوں نہ تو غلط ہوسکتے ہیں اورنہ ہی دونوںدرست۔ایک کوغلط اوردوسرے کودرست بھی نہیںماناجاسکتا۔
اوباما کہتے ہیں کہ آمرانہ ادوارہمیشہ ریاست کوکمزورکرتے ہیں۔اورجوآمرانہ ادوارکی سرپرستی کرتے ہیں ان کے بارے میں اوباماکے کیاخیالات ہیں۔کسی ملک میں جمہوریت کی حمایت اورکسی ملک میں آمریت کی سرپرستی۔یہ عالمی طاقتوں کے اپنے ہی مزاج ہیں۔جس طرح کی حکومتیں ان کے مفادات کے لیے موزوںہوتی ہیں یہ اس طرح کی حکومتوںکی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں۔باراک اوبامانے کہا کہ امریکہ کوبہت سے خطرات لاحق ہیںجن سے ہم واقف ہیں اپنے وطن کے دفاع کے لیے مجھے کبھی ہچکچاہٹ نہیںہوسکتی۔ضرورت پڑنے پراپنے ملک اور اتحادیوں کا بھرپور دفاع کروں گا۔ خطاب کے شروع میں امن کی باتیں اورآخرمیں دھمکی بھی۔اب امریکہ کو امن کاحامی سمجھاجائے۔
ہم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے امریکی صدرباراک کے خطاب سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اب دنیامیں تبدیلی کاعمل شروع ہوچکا ہے۔ عالمی حالات اب بتدریج بدلتے جارہے ہیں۔اس خطاب میں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ دنیامیں اب طاقت کااستعمال کسی بھی دوسرے ملک کے وسائل اورعوام پرتسلط نہیں دلاسکتا۔اس میں یہ خاموش اعتراف بھی موجود ہے کہ جنگیں مسائل کاحل نہیں ہیں۔کسی بھی ملک پرجنگ مسلط کرکے وہاں کے عوام کومغلوب نہیں کیاجاسکتا۔ہم نے امریکی صدرکے اس خطاب کی خبراپنے شہرمیں آنے والے تمام قومی اخبارات میںپڑھی ہے۔ان اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس خطاب میں اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کانام نہیںلیا کہ دہشت گردی کے خلاف جوجنگ امریکہ نے شروع کی تھی۔اس سے امریکہ کوکیاحاصل ہوا ہے۔
امریکہ، پاکستان، متاثرہ ممالک سمیت دنیا کی معیشت پراس کے کیااثرات مرتب ہوئے ہیں۔جن مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کرعراق پرحملہ کیاگیا تھا اوردہشت گردی کے خلاف وہاں جنگ لڑی گئی تھی۔ اپنی پسندکی حکومت قائم ہونے کے بعد وہاں سے کتنے مہلک ہتھیاربرآمدہوئے ہیں۔ اس خطاب میں طالبان کانام بھی نہیں لیاگیا اس کی جگہ داعش کانام لیاگیا ہے۔خطاب میں اوباما نے امن کی بات توکی ہے ان قوموں،ریاستوں اورعلاقوںکانام بھی نہیںلیاجوامن کے لیے گذشتہ کئی دہائیوں سے ترس رہے ہیں۔طاقت کے استعمال کومسائل کاحل نہ ہونا توکہا گیا ہے۔جوممالک طاقت کااستعمال کررہے ہیں ان کے بارے میںکچھ نہیںکہاگیا۔
اسرائیل، بھارت کو طاقت کا استعمال روکنے کا نہیں کہاگیا۔ مسئلہ کشمیرو فلسطین کی موجودگی، دہشت گردی کے خلاف جنگ جن ممالک میںلڑی گئی ہے وہاںاتحادی افواج کی موجودگی، دنیا میں مہلک سے مہلک ہتھیاروں کی موجودگی اور اسلحہ کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فضا میں دنیا میں امن قائم کرنے کی خواہش کااظہارتوکیاجاسکتا ہے تاہم دنیامیں ان حالات میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ چینی صدرژی چن پنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں دنیا میں امن نہ ہونے کی جووجوہات بتائی ہیں اور جو تجاویز دی ہیں ان وجوہات کو دور کرنے اور تجاویز پر عمل کرنے سے بھی دنیا میں امن قائم کیاجاسکتا ہے۔اوبامااپنے اورچینی صدرکے خطابات کا موازنہ کر لیں۔ بات آسان اور واضح ہوجائے گی۔
تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com