ہم جس دنیا میں رہتے ہیں یہ دنیا (کرۂ ارض) ہمارے نظام شمسی کا ایک حصہ ہے، خلا میں کروڑوں نہیں اربوں نظام شمسی اپنے اپنے مداروں پر گردش کر رہے ہیں۔ یہ انکشافات جدید دنیا کی تحقیق کا نتیجہ ہیں ورنہ ہزاروں سال تک ہماری دنیا میں بسنے والے انسان کرۂ ارض ہی کو کل کائنات سمجھتے رہے اور اس پس منظر میں عقائد و نظریات کی تشکیل ہوتی رہی۔
چاند بھی ایک سیارہ ہے اور ہمارے نظام شمسی ہی کا ایک حصہ ہے لیکن کرۂ ارض سے چھوٹا ہے۔ پچھلے ماہ سپرمون کا ظہور ہوا تھا، اب 2034 میں دوبارہ سپرمون نظر آئے گا۔ سپرمون اس وقت ظہور پذیر ہوتا ہے جب چاند اپنی گردش کے دوران زمین کے قریب ترین فاصلے پر آجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حجم میں بھی بڑا نظر آتا ہے اور اس کی روشنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اب چاند ماضی کی طرح محبوب کا استعارہ اور عاشقوں کا آئینہ نہیں رہا، جس میں عشاق اپنی محبوباؤں کا چہرہ دیکھ لیتے تھے، چاند کے داغ اب چرخہ کاتتی ہوئی بڑھیا نہ رہے، چاند روایتی خوبصورتی کے بجائے ایک بے آب و گیاہ، بنجر اور سنسان سیارہ ہے۔
یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں بلکہ چشم دید حقیقت ہے۔ بیسویں صدی میں جب آرم اسٹرانگ ایک امریکی شہری چاند پر ہو آیا تو کرۂ ارض پر واپسی کے بعد اس نے اپنے مشاہدات بتائے۔ یہ آنکھوں دیکھا حال ان روایتوں سے سراسر مختلف تھا جو ہزاروں سال سے ہماری زندگی کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔
ہم نے چاند کی حقیقت اس لیے بتائی کہ ہم بحیثیت قوم ابھی تک غیر منطقی روایات کے اسیر ہیں، جس کی وجہ سے ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس حوالے سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہماری غیر منطقی روایتی زندگی جدید تحقیقات سے متصادم ہے۔ ہماری دانش کا یہ امتحان ہے کہ ہم حقائق کو روایات سے اس طرح ہم آہنگ کریں کہ ہماری عقائدی زندگی درہم برہم ہوکر ایک بڑے نظریاتی انتشار میں نہ بدل جائے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا میں پسماندہ ملک ایسے جزیرے بنے ہوئے ہیں جہاں ہر طرف سناٹوں کا راج ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم دنیا پر حکمرانی کے خواہش مند ہیں لیکن ہمارے علم، ہماری معلومات کا عالم یہ ہے کہ ہم چاند گرہن کی تعبیر یہ کرتے ہیں کہ سانپ جب چاند کو نگلتا ہے تو چاند گرہن ہوتا ہے۔ ایسے بے شمار نظریات ہیں جس کی تفصیل میں جانا بے فائدہ ہے، لیکن اب ہماری قومی ضرورت یہ ہے کہ جدید علوم اور سائنس کو اپنی قومی زندگی کا حصہ بنائیں اور چاند دیکھنے اور تین تین عیدیں منانے کے جھگڑوں سے نکل کر چاند پر پہنچنے کی تیاری کریں۔ یہی وہ طریقے ہیں جو آج کی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔
یہ آج کی بات نہیں سیکڑوں سال پہلے کی بات ہے کہ کچھ جینئس لوگوں نے اپنی تحقیق کے حوالے سے یہ کہا کہ زمین سورج کے گرد اپنے محور پر گردش کر رہی ہے اور سورج ساکن ہے، چونکہ یہ تحقیق اس وقت کے کلیسائی نظریات سے متصادم تھی لہٰذا اہل کلیسا نے اس تحقیق کو دین سے بغاوت کا نام دیا اور محققین کو سزائے موت سنا دی۔ یہ سارا جھمیلا جہل کا نتیجہ تھا، آج بھی اور آج سے ہزاروں سال پہلے بھی سورج زمین کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔
صبح مشرق سے طلوع ہوتا ہے، شام مغرب میں غروب ہوتا ہے، ظاہری طور پر سورج گردش کرتا نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں زمین سورج کے گرد گردش کناں ہے۔ اس حقیقت سے اب تیسری کلاس کا بچہ بھی واقف ہے، لیکن 30 سال کے کروڑوں جوان اور 80 سال کے کروڑوں بوڑھے آج بھی سورج کو زمین کے گرد گردش کناں ہی سمجھتے ہیں، یہی ہماری ذہنی پسماندگی ہے جو ہماری ترقی کی راہ کا روڑا بنی ہوئی ہے اور اس سے نجات پائے بغیر ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہیں ہوسکتے۔
کرۂ ارض کے ماہرین کی تحقیق اور علم کے مطابق کرۂ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال ہو رہے ہیں، کرۂ ارض پر انسانی تہذیب محض دس پندرہ ہزار سال پر مشتمل ہے۔ کیا دس پندرہ ہزار سال سے پہلے چار ارب سال کے درمیان کرۂ ارض پر ہمیشہ سناٹوں کا ہی راج رہا؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ چار ارب سال کے دوران ہزاروں تہذیبیں وجود میں آتی رہی ہوں اور مٹتی رہی ہوں۔ آج ایک بار پھر کرۂ ارض کی تباہی یعنی کرۂ ارض پر جانداروں کے فنا ہونے کی پیش گوئیاں ہو رہی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اگر یہ جاری رہا تو سطح سمندر میں اس قدر اضافہ ہوجائے گا کہ دنیا کے کئی ساحلی شہر سمندر برد ہوجائیں گے۔ درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ ہوجائے گا کہ کرۂ ارض پر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکے گا۔ یہ کوئی مجرد تصورات نہیں، بلکہ وہ حقائق ہیں جن کا سامنا اپنی چار ارب سال کی عمر میں کرۂ ارض ممکنہ طور پر ہزاروں بار کرتا رہا ہے۔
کرۂ ارض سے ہزاروں بار زندگی ممکنہ طور پر فنا ہوتی رہی اور پھر کروڑوں سال کے دوران دوبارہ ظہور پذیر ہوتی رہی۔ اگر ایک بار پھر کرۂ ارض سے زندگی ختم ہوجاتی ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ زندگی کے خاتمے کے اسباب خود انسان ہی پیدا کرتا رہا۔
چاند ایک چھوٹا سا سیارہ ہے لیکن ہماری ہی نہیں بلکہ پسماندہ قوموں کی زندگی میں چاند عجیب و غریب روایتوں کا حصہ بنا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ذہنی پسماندگی میں مبتلا رہا، جہاں ذہنی پسماندگی رہتی ہے وہاں روایات مذہب کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہر وہ تحقیق، ہر وہ انکشاف جو ہماری روایات سے متصادم ہو، قابل گردن زدنی قرار دے دی جاتی ہے۔
آج دنیا جس مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہی ہے اس کا علاج جدید ہتھیاروں جنگوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کا علاج تعلیم کو لازمی اور عام کرنے سے ہی ممکن ہے، کیونکہ جو جہل سادہ لوح انسانوں کو خودکش حملوں کے ذریعے جنت میں جانے کی گارنٹی دیتا ہے اس جہل کو نہ امریکا جیسی سپرپاور فوجی طاقت سے ختم کرسکتی ہے نہ پاکستان محض دہشت گردوں کے علاقوں کو فتح کرکے ختم کرسکتا ہے، یہ جہل علم اور شعور کی ترقی ہی سے ختم ہوسکتا ہے۔