تحریر: طارق حسین بٹ
پاکستان میں جو چیز سب سے زیادہ حوصلہ افزا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں دینی جماعتوں کے اندر اسلامی حمیت کے بارے میں اب بھی دم خم باقی ہے اور وہ اس حمیت پر کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔اغیار کی تمام کوششیں تو انھیں مٹی کا ایسا ڈھیر بنانے کے در پہ تھیں جس میں نہ شعلہ ہو اور نہ ہی کوئی چنگاری باقی رہے تاکہ وہ اسلام کے نام پر کوئی ا حتجاج اور جلسہ جلوس کرنے کے قابل نہ رہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اہلِ پاکستان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا جو طوفان ٹھاٹھیں مار رہا ہے وہ انھیں ایک دفعہ پھر دینی جماعتوں کی چوکھٹ پر لے گیا ہے جہاں سے وہ ہر شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لکارتے اور اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان، مولانا سراج الحق اور ان کے ہمنوائوں نے جسطرح سے ناموسِ رسالت کے نام پر عوام کی قیادت کی ہے وہ قابلِ فخر ہے۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں چارلی ہیبڈو کی دیدہ درہنی کے خلاف عوام کی قیادت کرتیں اور اس دشنام اخبار کے خلاف رائے عامہ کو منظم کرتیں لیکن انھوں نے خاموشی کی چادر اوڑھ لینے میں عافیت جانی۔پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) ،پی پی پی او پاکستان تحریکِ انصاف نے اس معاملے میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔
اور کسی بھی قسم کے احتجاج سے خود کو دور رکھا ہے جس سے عوام میں اضطراب پایا جاتا ہے۔پی پی پی کے بارے میں کچھ ناقدین کی رائے ہے کہ یہ ایک سیکو لر مائینڈ سیٹ کی جماعت ہے لہذا اگر یہ چارلی ھیبڈو کی ناپاک جسارت پر خاموش ہے تو اسے اس کی سیاسی مجبوری سمجھا جانا چائیے ۔ پی پی پی کی موجودہ قیادت کا شائد ایقان ہے کہ مذہب کو سیاسی مقاصد کی خاطر استعمال نہیں کیا جانا چائیے لہذا ان کی حالیہ خاموشی کو مذہب سے دوری کی علامت تصور کیا جا نا چائیے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے کیونکہ پی پی پی کے بانی چیرمین ذولفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا اور اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کر کے اپنی مقبولیت کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا تھا لہذا پی پی پی مذہب بیزار جماعت نہیں ہے اور نہ ہی رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کسی دوسری جماعت سے پیچھے ہے لیکن اس کی حالیہ قیادت نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ یہ محبوبِ خدا ۖسے محبت کے معاملے میں انتہائی کمزور اور غیر ذمہ دار ہے حالانکہ اس طرح کی سوچ پی پی پی کے بنیادی فلسفے سے مطابقت نہیں رکھتی۔پی پی پی کے جیالوں کیلئے رسول اللہ ۖ کی محبت میں جان دینا دنیا کی سب سے بڑی سعادت ہے او وہ اس سعادت سے سرفراز ہونا اپنا لئے باعثِ صد افتخار سمجھتے ہیں۔عمران خان آجکل اپنی نئی دلہن راحیم خان کے ناز نخرے اور چائو دیکھ رہے۔
ہیںلہذا ان کی ترجیحات دوسری ہیں۔ان کی ذات سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ناموسِ رسالت کے معاملے میں تاریخ ساز جلوس کی قیادت کریں گئے اور دنیا کو یہ پیغام دیں گئے کہ ناموسِ رسالت کے معاملے میں اہلِ پاکستان باکل ایک ہیں، یک زبان ہیں، یک جا ہیں، ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ وہ شاتمانِ سول ۖکے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں رکھتے ۔عمران خان نے احتجاجی سیاست،دھرنوں اور جلسے جلوسوں کا جو نیا کلچر متعارف کروایا تھا اس سے یہ امید بندھ چلی تھی کہ وہ اس نئے کلچر میں ناموسِ رسالت کیلئے جلسے جلوسوں کو بھی شامل کر کے عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گئے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا جبکہ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ عمرے کیلئے سعودی عرب تشریف لے گئے اور قوم انے ان سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ان پر نہ صرف یہ کہ اوس پڑ گئی بلکہ ان کا خون بھی کر دیا گیا۔میاں محمد نواز شریف جو کہ بنیادی طور پر دائیں بازو کے سیاست دان ہیں، مذہبی جماعتوں سے جن کے دیرینہ مراسم ہیں اور جھنیں ماضی میں اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ رہنے کا بھی اعزاز حاصل رہا ہے ان کا کردار بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔
انھوں نے بھی اس معاملے کو انتہائی غیر اہم سمجھ کر اس پر کسی قسم کا کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ۔ جہاں تک اخباری بیانات کا تعلق ہے تو اخباری بیان دینا ہمارے سیاستدانوں کی مجبوری ہے کیونکہ میڈیا کے اس تیز ترین دور میں خود کو زندہ رکھنے کیلئے اخباری بیان جاری کرنا انتہائی ضروری تصور کیا جا تا ہے لہذا وہ ایسا کرنے میں کبھی نہیں چوکتے۔قوم ان سے جس طر ح کے کرادر کی توقع لگائے بیٹھی تھی وہ اس پر پورا نہیں اترے جس سے قوم کو مایوسی ہوئی ہے ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں مذہبی جماعتیں سامنے آئیں، انھوں نے یورپ، امریکہ اور ان کے حوا ریوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور انھیں یہ پیغام دیا کہ محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفے ۖسے محبت کرنے والے دیوانے ابھی تک زندہ ہیں لہذا چارلی ھیبدو جیسی دشنام طرازی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔کراچی اسلام آباد اور لاہور میں ان کی ریلیاں اس بات کا ثبو ت تھیں کہ عوام غم و غصے کی شدید کیفیت میں ہیں اور چارلی ھیبدو جیسے شاتموں کو سبق سکھانا چا ہتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی ان ریلیوں سے عوام میں ان کی ساکھ بھی بہتر ہوئی ہے اور ان کی مقبو لیت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کے حالیہ اقدامات عوام کے دل کی آواز تھے۔،۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا پر اس وقت امریکہ کی حکومت قائم ہے اور کسی حکمران میں اتنا د م خم نہیں کہ وہ امریکہ کو آنکھیں دکھا سکے۔مسلمان ممالک جہاں پر شخصی حکومتیں ہیں ان کا خوف زدہ ہونا توسمجھ میں آتا ہے کیونکہ امریکہ انھیں کوئی بھی بہانہ بنا کر نشانِ عبرت بنا سکتا ہے لیکن وہ ممالک جہان پر جمہوریت ہے اور حکمران عوامی طاقت سے اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہیں ان کی خا موشی باعثِ تشویش ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی حکمران امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لہذا وہ امریکی ناراضگی کو مول لینے کو سودا نہیں کرتے۔چارلی ھیبدو کی سازش کے پیچھے بھی امریکی ذہنیت کارفرما تھی لہذا حکمرانوں کا اس سارے منظر نامے سے دور رہنا سمجھ میں آ تا ہے۔
امریکہ اس طرح کی حرکات سے مسلمانوں میں جذباتیت کی لہر پیدا کرتا ہے اور انھیں متشدد رویے اپنانے پر مجبورکرتا ہے تا کہ جوشِ محبت میں وہ ایسے افعال کے مرتکب ہو جائیں جس سے انھیں دھشت گرد کہنے کا بہانہ مل جائے۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ جس اخبار نے کارٹون چھاپنے کی ناپاک جسارت کی تھی اسے اسی وقت بند کر دیا جاتا اور اس کے ذمہ داران کو تنبیہ کی جاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیابلکہ اس اخبار کو ہلہ شیری دی گئی کہ وہ اس طرح کے مزید کارٹون چھاپے۔اب اگر اس ناپاک جسارت پر چند اہلِ ایمان نے کارٹون بنانے والے کوجہنم واصل کر دیا ہے تو اس میں قصور وار کون ہے؟یورپی قائدین نے ایسے حالات پیدا کر دئے تھے کہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا تھا۔میرے خیال میں اس سارے کھیل کا اصلی مجرم وہ شخص ہے جس نے یہ جانتے بوجھتے کہ مسلمان اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں انتہائی جذباتی ہیں اور کوئی ایسی بات سننے کو آمادہ نہیں جو ان کی شان میں گستاخانہ انداز لئے ہوئے ہو لہذا اسے کار ٹون بنانے سے قبل سو بار سوچنا چائیے تھا کہ مسلمان کس طرح کا ردِ عمل ظا ہر کریں گئے۔
کارٹون بنانے والے کو صفحة ِ ہستی سے مٹانے کا عمل ایک فطری ردِ عمل تھا جسے یورپ اپنی مذہب بیزارانہ سوچ کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر ہے۔ یو ر پ نے اس حساس معاملے کو سلجھانے کی بجائے اسے مزید الجھ اکر رکھ دیا ہے۔٤٠ سے زائد ممالک کے حکمرانوں نے باہم مل کر اس ناپاک حرکت کی حو صلہ افزائی کی ہے جس سے دنیا میں مزید تنائو پیدا ہو گیا ہے ۔ ہماری موجودہ د نیا جو پہلے ہی امریکی غنڈہ گردی کی وجہ سے انتہائی غیر محفوظ ہے مزید غیر محفو ظ ہو گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت طاقت کا سارا توازن امریکہ اور اس کے یورپی حلیفوں کے ہاتھوں میں ہے لہذا وہ جو چاہتے ہیں اور جس طرح سے چاہتے ہیں دنیا اسی طرح سے اپنا ردِ عمل ظا ہر کرتی ہے ۔میڈیا پر ا نہی کی حکمرانی ہے اور وہ اپنی جادو گری سے اس کا جس طرح جانبدارانہ اورتعصبانہ استعمال کرتے ہیں اس سے یہ ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے اور سچ کو سچ کہنے سے گریزا ں ہے ۔مسلمان بے شمار دولت کے حامل ہونے کے باوجود ان کے سامنے کھڑا ہونے سے خوف زدہ ہیں کیونکہ ایسا کر نے سے ان کے مفادات کوزد پہنچتی ہے۔یہ وقت بھی آنا تھا کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو بھی نفع و نقصان کے ترازو میں تولا جانا تھا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خا طر جانیں نچھا ور کرنا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہونا چائیے ۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ
(چیرمین پیپلز ادبی فورم )