تحریر : شاہد شکیل
دنیا میں ایسے بھی انسان ہیں جو ہوش میں رہتے ہوئے بھی مد ہوش اور بے ہوش ہیں اور ایسے انسان بھی ہیں جو بستر مرگ پر بے ہوشی کے عالم میں ہوش و حواس قائم رکھے ہوتے ہیں ایسے افراد جو ادویہ کے زیر اثر مصنوعی بے ہوشی کے عالم میں پائے جاتے ہیں اسے طبی زبان میں آرٹیفیشل کوما یعنی مصنوعی بے ہوش کہا جاتا ہے مصنوعی بے ہوشی کیا ہے اور کیوں اسکا استعمال کیا جاتا ہے ؟طبی زبان میں مصنوعی بے ہوشی کو گہری اور مکمل نیند کہا جاتا ہے بدیگر الفاظ ایک طویل مدتی اینستھیزیا جسے آئی سی یو کے مریضوں کی نگرانی کے طور پر استعما ل کیا جاتا ہے،اصل میں کوما یونانی لفظ ہے جس کے معنی گہری اور مکمل نیند ہے اور عام طور پر آئی سی یو کے مریضوں کے جسم کو مکمل آرام و سکون پہنچانے کیلئے مختصر یا طویل مدت مصنوعی طور پر بے ہوش کیا جاتا ہے۔
مصنوعی بے ہوشی کو عام طور پر سنگین حادثے یا جان لیوا بیماری میں استعمال کیا جاتا ہے اور ان مریضوں کو اس کے زیر اثر رکھا جاتا ہے جنہیں شدید انفیکشن ہو اور تکلیف ناقابل برداشت ہو ،موثر علاج اور جسم کی حفاظت کیلئے مریض کو آکسیجن دی جاتی اور دیگر تمام جسمانی اعضاء کے فنکشن مثلاً دل کی فریکونسی ،بلڈ پریشر وغیرہ کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جاتی ہے۔آرٹیفیشل کوما کے پس منظر میں شدید اور جان لیوا بیماریوں یا سنگین جسمانی چوٹوں میں مبتلا افراد جو انتہائی تکلیف اور گھبراہٹ کا شکار ہوں اور بدستور جسمانی اعضاء اور نظام شدید دباؤ یا کھچاؤ کا شکار ہوں۔
بھاری کشیدگی یعنی سٹریس میں ہوں جس کے سبب زندگی موت کا منظر پیش کرے اور مریض نیم بے ہوشی میں بے بس ہو جائے اپنے جسم کی حفاظت نہ کر سکے اور موت کا خوف سر پر سوار رہے ایسے افراد کو مصنوعی طور پر کچھ گھنٹوں کیلئے آرٹیفیشل کوما میں منتقل کیا جاتا ہے۔زندگی اور موت کے درمیانی فاصلے ، لمحات اور انسانی جسم کا شدید تکلیف میں مبتلا ہونے کی صورت میں یہ فعل ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ، مریض کو تکلیف سے بچانے کیلئے ڈاکٹرز اپنے ساز وسامان سے مریض کی بے چینی ،گھبراہٹ اور تکلیف دہ عمل کو سہل کرنے میں اپنا فرض ادا کرتے ہیں تا کہ مریض پرسکون رہے اور کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ کرے، خوفزدہ نہ ہو اور بنیادی جسمانی اعضاء بدستور اور مسلسل فنکشن کرتے رہیں۔
مریض کی حالت کو دیکھ کر ڈاکٹرز کسی بھی وقت مصنوعی کوما کا اختتام یا طویل کر سکتے ہیں، طوالت میں ممکنہ طور پر کئی دن ہفتے اور سالوں تک اس کوما کا استعمال جاری رکھا جا سکتا ہے بدیگر الفاظ جب تک مریض نارمل طور پر اپنے ہوش وحواس میں نہیں آتا ۔مصنوعی کوما کے زیر اثر تقریباً تمام مریض ہمیشہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے واقف رہتے ہیں اس دوران ڈاکٹر مریض کی حالت کے پیش نظر ادویہ کی مقدار کو کم یا بڑھاتے ہیںاس عمل سے ڈاکٹر کو مریض کی حالت کا اندازہ رہتا ہے کہ کب مکمل طور پر بیدار ہوگا یا مزید مصنوعی کوما کی ضرورت ہے اور اس ریتھیم سے مریض اپنے دن رات کا تعین کرتے اور مختصر مدت کیلئے ہوش میں آنے سے زندگی کومحسوس کر سکتے ہیں۔
اسی عمل سے ہی ڈاکٹرز اور عملے کو آگاہی رہتی ہے کہ مریض مکمل ہوش میں ہے اور پریشانی کی کوئی بات نہیں ایسے مریضوں کو بذریعہ خاص ٹیوب سے خوراک مہیا کی جاتی ہے یا مختلف اقسام سے بذریعہ بلڈ خوراک جسم میں پہنچائی جاتی ہے جو ایک خصوصی ٹیم سر انجام دیتی ہے۔کچھ سنگین بیماریوں میں مریض کو خاص طور پر ریسیسٹیشن کے ساتھ بتیس سے چونتیس ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا رکھا جاتا ہے یہ عمل خاص طور پر دل کی دھڑکن کا توازن برقرار رکھنے اور حرکت کیلئے استعما ل کیا جاتا ہے آکسیجن لازمی ہوتی ہے جو دماغ کے فنکشن کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے تاکہ خطرناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے تاہم یہ عمل بہت کم کیا جاتا ہے۔
مصنوعی کوما کے خطرات یا ضمنی اثرات بہت کم ہوتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے ایسے مریضوں کو خطرہ اس وقت لاحق ہو سکتا ہے جب وہ مصنوعی کوما سے اصل زندگی میں داخل ہوتے ہیں یعنی مکمل طور پر بیدار ہوتے ہیں اس وقت جسم کا نارمل طریقے سے فنکشن کرنا لازمی ہوتا ہے اور اسی لئے ڈاکٹرز مریضوں کو نیند کی گولیاں یا دیگر ادویہ کا استعمال ایک دم بند یا ختم نہیں کرتے بلکہ رفتہ رفتہ انہیں ریڈیوس کیا جاتا ہے، مصنوعی کوما سے بیدا ر ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد ممکنہ طور پر مریض کچھ دیر کیلئے فریب نظر کا شکار رہتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتے لیکن یہ بہت کم چانس ہیں ،ادویہ کے استعمال کے بعد مریض دوبارہ نارمل حالت میں آجاتے ہیں اور کچھ گھنٹوں یا دنوں بعد مصنوعی کوما کا تمام اثر زائل ہو جاتاہے۔لیکن مریض چند ماہ مخصوص ڈاکٹرز کے زیر علاج رہنے کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
تحریر : شاہد شکیل