ضلع جعفرآباد کے قریب رہائشی غلام جان سے ملاقات اسکول کے دورہ کے دوران ہوئی۔ جب ہم این پراجیکٹ کے دوران علاقے کے لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کر رہے تھے۔ دورانِ گفتگو جب ہم اسکول چھوڑ دینے والی بچیوں کو دوبارہ اسکول داخلے کے لئے آمادہ کر رہے تھے تو غلام جان نے بتایا کہ اُس کی بیٹی نے پانچویں جماعت پاس کی ہوئی ہے، آگے کوئی مڈل یا ہائی اسکول نہیں تھا تو اُس نے اپنی بیٹی شادی کردی، جب وہ یہ بات بتارہا تھا تو غلام جان نے اپنا سر جُھکا دیا اور میں سمجھ نہیں پائی اُس نے اپنا سر درد کی وجہ سے جھکایا تھا یا پھر شرمندگی کی وجہ سے۔
تفصیل سے گفتگو کرنے پر پتہ چلا غلام جان کی دو بیویاں اور 10 بچے ہیں، جِن میں دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ شاہدہ بھی اِن میں سے ایک ہے، جِس کی شادی کم عمری میں کردی گئی۔ جب اِس حوالے سے پوچھا گیا کہ بچی کی کم عمری میں شادی کیوں کی؟ تو والد نے بتایا کہ بچی نے پانچ جماعتیں پڑھ لی تھیں، مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے گاؤں میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا، اور جو مڈل اسکول ہے وہ بہت دور ہے۔ ہم کسان لوگ ہیں، سارا دن زمینوں پر گزرتا ہے، بچی کو اکیلا گھر میں نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اگر آگے اسکول ہوتا تو اُس میں داخل کرا دیتے، بچی اسکول جاتی تو تسلی رہتی، لیکن اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچی کی شادی کرنا پڑی۔ ادھوری اور ناکافی سہولیات کی وجہ سے اور بھی نہ جانے کتنی بچیاں خواب دیکھنے کی عمر میں زمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا دی جاتی ہیں۔
بات تو شاید چھوٹی سی لگ رہی ہے لیکن ایک بچی کی نامکمل تعلیم سے ایک نامکمل خاندان بنتا ہے، ایک تعلیم یافتہ عورت سے معاشی استحکام بھی ہوتا ہے۔ جب بات ہو کم عمری کی تو کم عمر میں شادی سے بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں جن میں سب سے سرفہرست ماں بچے کی اموات کی شرح میں اضافہ ہے۔ بلوچستان میں ماؤں کی شرحِ اموات بہت بلند ہے۔ ہر ایک لاکھ میں سے 785 مائیں دورانِ زچگی انتقال کرجاتی ہیں جبکہ ہر ایک ہزار بچوں میں 97 بچے بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے موت کا شکار ہوجاتے ہیں، یہی مائیں اگر خواندہ ہوں اور صحت کے بنیادی مسائل سے آگاہی رکھتی ہوں تو نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات میں خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے۔
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے، جس میں ماں بچے کی شرحِ اموات سب سے بلند ہیں اور اگر تعلیم کی فراہمی اور ناخواندہ بچیوں کی شرحِ تعلیم کو دیکھا جائے تو یہ صوبہ سب سے پست ہے۔ صوبے میں جہاں دہشت گردی، قانون کا نفاذ جیسے بڑے مسائل درپیش ہیں، وہیں معیاری تعلیم کی فراہمی ممکن بنانے میں بھی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ بلوچستان میں بچیوں کی کم عمری کی شادی ایک عام سی بات ہے لیکن اِس سے پیدا شُدہ مسائل عام نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں اِس حوالے سے اعداد و شمار بھی میسر نہیں۔ یہاں کتنی ننھی کلیاں گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں گڑیا جیسے بچوں کو جنم دے کر اُسے پالنے کی تگ و دو میں لگ جاتی ہیں۔
کوئی بھی مسئلہ بغیر کسی وجہ کے نہیں ہوتا، ہر مسئلے کے پیچھے کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ آج پاکستان بھر میں چھوٹی عمر کی شادیوں، کاروکاری، ماں بچے کی اموات پر بات تو ہوتی ہے، بڑے بڑے سیمینار بھی منعقد کئے جاتے ہیں (جن کا براہِ راست ایک عام خاتون کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا) اور مسئلے کے حل کے لئے بڑی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہیں، لیکن کبھی مسئلے کو جنم دینے والی وجوہات پر کام نہیں ہوتا، جس سے یہ سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں، مگر افسوس کہ کبھی اِس پر اتنی توجہ یا غور نہیں کیا گیا۔
میں اپنی ناقص رائے اور تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتی ہوں کہ اگر ایک بچی 5 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کی جاتی ہے تو میٹرک تک اِس کی عمر 16 سال ہوجاتی ہے، اگرچہ یہ عمر بھی شادی کے لئے موزوں نہیں لیکن 12 اور 14 سال کی عمر کے مقابلے میں 16 کی لڑکی طبعی و ذہنی طور پر نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ اگر کم عمری میں شادی کی روک تھام ہوسکے تو ماں بچے کی اموات کی شرح میں واضح کمی ہوگی، لیکن اِس کیلئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ مسائل کو جڑ سے ختم کرنا یا اُکھڑی دیوار پر نیا رنگ روغن کرکے حقیقی بدنما داغ چھپانا؟
آج بھی بلوچستان میں 75 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جا پاتیں، اُن میں سے 50 فیصد کی کم عمری کی شادیوں کا خدشہ ہے اوران کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے کم ازکم 20 فیصد ماں اور بچے کی صحت کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ اِس لیے حکومت کو چاہیئے کہ وہ مسائل کا ڈھول پیٹنے کے بجائے عملی اقدامات کرے اور اِس سلسلے میں خواتین کے آدھے سے زیادہ مسائل کو معیاری تعلیم کی فراہمی ممکن بنا کر کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے لیکن ضرورت عملی اقدامات کی ہے۔
نوٹ: یس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔