لاہور (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے ملک کو دیوالیہ قرار دئیے جانے کی خبر سے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اسد عمر پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ ہیں جو قوم کو خبردار کر رہے ہیں کہ دیوالیہ قرار دئیے جانے کا خدشہ موجود ہے۔ نامور کالم نگار کنور دلشاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے اورملک کو دیوالیہ قرار دینے کی خبریں قوم کو یہ باور کرانے کی راہ ہموار کر رہی ہیں کہ صرف قومی اثاثے گروی رکھ کر ہی ملک کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے ۔ بدقسمتی سے وزیراعظم باوجود کوشش کے عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کر پارہے۔ عوام کو صرف سختی برداشت کرنے کا درس ہی دیا جا رہا ہے‘ جبکہ حکومت کے غیر مقبول فیصلوں سے عام آدمی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ کی دلیلوں میں کوئی وزن نہیں رہا لہٰذاتمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس طلب کرکے نیلسن منڈیلا کی طرز پر” ٹروتھ کمیشن ‘‘قائم کرکے پاکستان کے تمام معاشی گروپس‘ جنہوں نے ملک کو بے دردی سے لوٹا‘ سے رقوم واپس لینے کا فارمولا بنا کر ان کے کالے دھن کو سفید کرنے اور یہ دولت پاکستان کے بینکوں میں جمع کرانے کی ضمانت لی جائے۔ یقین کریں پاکستان کی کھربوں روپے مالیت کی دولت ان بااثر شخصیات کے گھروں میں محفوظ ہے۔ اگر ان کو تحفظ دیا جائے تو یہ کھربوں روپے واپس بینکوں میں آ سکتے ہیں ۔ آئندہ کرپشن کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے ایسے کرپٹ عناصر کو سخت ترین سزا بھی دی جاسکتی ہے‘ لیکن جو دولت 30 سال پہلے لوٹی گئی اس کی واپسی کی کوئی راہ ضرور نکالی جائے۔ بار بار این آر او کا تذکرہ کرنے کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں ۔ قومی احتساب بیورو ملک کومعاشی لحاظ سے دیوالیہ بننے سے بچانے کے لئے جرأت مندانہ اقدامات کر رہا ہے۔ زرداری گروپ کی دولت اور نواز خاندان کے اربوںکی مالیت کے محلات واپس نہیں لئے جا سکتے کیونکہ لندن ‘ دبئی ‘ سپین ‘فرانس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ ان کے محلات کسی بھی صورت حکومت پاکستان کو ملنے کے امکانات نہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت ملک میں ایمرجنسی لگا کر پارلیمنٹ کو کچھ عرصے کے لیے معطل کر کے بے رحمانہ طریقے سے دولت واپس لینے کے اقدامات کیے جائیں یا پھر تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کے مینڈیٹ کے مطابق فیصلے کرتے ہوئے ان کو معاشی ریلیف دے کر دولت واپس لینے کا طریقہ اپنایا جائے۔ وزیرخزانہ اسدعمر نے بظاہر امریکہ کو خوش کرنے کے لیے مایوس کن بیانات دے کر ملک میں اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان کے اس حالیہ بیانیے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جانی چاہیے۔پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران گزشتہ ادوار کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔انرجی سیکٹر اسحاق ڈار نے تباہ کر دیا تھا۔ پندرہ سو ارب کا سرکلر ڈیٹ اب موجودہ حکومت کے سر پر ہے۔ موجودہ حکومت کی بیرونی فنڈنگ کی پالیسی سے ادائیگیوں کے توازن کا دباؤ کم ہوا ہے مگر ابھی اصلاحات کرنا باقی ہیں۔حکومت آئین اور قانون کے تحت ہی چلتی ہے اور فیورٹ ازم سے ماضی میں بھی حکمران عوام میں غیر مقبول ہی ہوئے ہیں اور اس پر موجودہ حکومت کے عہدے دار بھی معترض رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں اختلافات سنگین ہوتے جا رہے ہیں اور امکان یہ نظر آتا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی بجٹ منظور نہیں کرسکے گی ۔