تحریر : ساجد حسین شاہ
ماں جس کی شان دین اسلام نے بیان کر تے ہو ئے ایسی عظیم جگہ اسکے پیروں تلے کر دی جسکا حصول ہر مسلمان کی اولین تمنا اور فرض ہے ماں کی عظمت تو ہمارے یہ حروف بیاں نہیں کر سکتے لیکن یہ وہ جذبہ ہے جو کڑ کتی دھو پ میں بھی ٹھنڈک کا احسا س دلا تا ہے ما ں کی محبت کو تووہ اعلیٰ مقا م حا صل ہے کہ رب باری تعا لیٰ نے بھی اپنی محبت کو ما ںکی محبت سے تشبیہ دی کسی بھی معا شرے کی تعمیر میں اہم کر دار ما ں کا ہی ہو تا ہے کسی نے کیا خو ب کہا ہے مجھے ما ں اور پھول میں کو ئی فرق نظر نہیں آ تا اگر دنیا آ نکھ ہے تو ما ں اسکی بینا ئی ہے دنیا پھول ہے تو ماں اسکی خو شبو ہے سخت سے سخت دل کو بھی ماں کی پر نم آ نکھوں سے مو م کیا جا سکتا ہے بغیر لا لچ کے اگر پیار ملتا ہے تو صر ف ما ں سے جس کے بغیرگھر قبر ستان کی ما نند ہے بظا ہر تو اس ماں کی تخلیق نہا یت نر م و نا زک اور شیریں لب لہجہ والی ہو ئی لیکن جب کو ئی اس کے لخت جگروں کی طر ف ٹیڑی آ نکھ سے بھی دیکھے تو وہ اس کی آ نکھ نو چ کر نکال لینے کو تیا ر ہو جا تی ہے
اپنے بچوں کے لیے جہا ں اسے خطرہ محسوس ہو تو وہاں یہ ما ںکسی خون خواردرندے پر جھپٹنے سے گریز نہیں کر تی آ ج ما ں کی شان میں جب یہ سطور رقم کر رہا ہو ں تو میری آ نکھوں کے سا منے سا نحہ پشاور کہ وہ منا ظر گھو م رہے ہیں جو مجھے آ بدیدہ کر رہے ہیں جب یہی ما ئیں اس دنیا کی ہر چیز سے بے خبر پشاور کی سڑکوں پر اپنے راج دلا روں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دیوانے وار ہر سو بھا گ رہیں تھیں۔ سا نحہ پشاور پر ان ما ئو وں کو یقین دلا یا گیا کہ انکے جگر گوشوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حسا ب لیا جا ئے گا تو پھر ایسی کون سی روکاٹ اس کے آ ڑے آ ئی جس کی وجہ سے ان معصوم شہدا ئوںکی ما ئوں کو سڑکوں پر آ کر اپنے ان جا نبا زوں کے لیے انصا ف کی بھیک ما نگنا پڑی ٹی وی پر جب ان لا چار ما ئوں کی پریس کا نفرنس سنی تو آ نکھیں شرم سے جھک گئیں جس میں انہوں نے اس بات کا اظہا ر کیا کہ ہم سے عمران خان صا حب نے وعدہ کیا تھا کہ آ پ کو سو لہ دن کے اندر اندر انصا ف مل جا ئے گا اور انکا مطا لبہ تھا کہ تحقیقاتی رپورٹ ہمارے سا منے لا ئی جا ئے اور جو بچے ز خمی ہیں انہیں بیرون ِملک بھیجوا کر بہترین طبی سہو لیات مہیا کی جا ئیں
بحیثیت مسلمان اور پا کستانی میرا سر شرم سے جھک گیا کہ آیا ہم ایک ایسے معا شرے میں سا نس لے رہے ہیں جہاں ان ما ئو ں کو بھی انصا ف میسر نہیں جنہوں نے اپنے نو نہالوں کو اس وطن کی سلا متی پر قر با ن کر دیا اور مجھے حیرا نگی ہے کہ عمران خان صا حب دن میں کئی با ر آ کر نیوز چینلز کی زینت بنتے ہیں اور دھا ندلی کا ڈھنڈھوراخو ب پیٹتے ہیں کیو نکہ انھیں پا کستان کی حکمرا نی درکار ہے مگر یہ تو فیق نہیں ہو تی کہ جس صو بے پر وہ حکمران ہیں وہا ں پیش آ نے والے اس المنا ک سا نحے پر ایک نظر ڈال سکیں اور ان ما ئوں کو انصا ف نہ سہی جھو ٹا دلا سہ ہی دے دیں جیسے کے وہ ان چیک کی صورت میں دے رہے ہیں جو با ر بار با ئو نس ہو رہے ہیںاگر ہم نے اس سا نحے کو بھلا دیا تو شا ید ہم وہ عزم بھی کھو بیٹھیں گے جو ہم نے آ خری دہشت گرد کے خا تمے تک کا کیا تھا اس لیے یہ ضرورتِ وقت ہے کہ ہم با ر با ر اس سا نحے کی یا دوں کو اپنے دلوں میں کھریدیں تا کہ یہ درد اور غم روز اول کی طر ح ترو تا زہ رہے اور ہمارے کند زہنوں کو یہ یا د دلاتا رہے کہ ہمیں صرف اپنے قیمتی اثا ثے سے ہی محروم نہیںکیا گیا بلکہ ان دہشت گر دوں کی لگا ئی گئی چوٹوں نے ہمار ی ر وح تک کو زخمی کیا ہے اس لیے جب تک ہم اس بڑ ھتے ہو ئے سر طان کو جڑ سے اکھاڑ نہ دیں
اپنے وطن عزیز کو اس لعنت سے آ زاد نہ کر دیں چین سے نہیں بیٹھیں گے ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمن مسلسل اس تگ و دو میں مصروف ہیں کہ پا کستان کے مستقبل کو اندھیروں میںدھکیلا جا ئے اس لیے تو با ر با ر تعلیمی اداروں کو نشا نہ بنا یا جا رہا ہے تا کہ خوف کی وہ فضا پیدا کی جا ئے کہ وا لدین اپنے بچوں کو علم کے حصول سے روک دیں اور درسگاہیں ویران ہو جا ئیںیہ دشمن چاروں اطراف سے ہم پر حملہ آ ور ہو رہا ہے پہلے پا کستان میں یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ پو لیو ویکسین کے ذریعے نسل کشی کی جا رہی ہے اور خیر سے ہما رے ہا ں ایسے بیوقو فوں کی کمی نہیں جنہوں نے ان افواہوں پر یقین کر تے ہو ئے انکے اس عز م کو کا میاب بنا یا اور پھر پو لیوں ورکرز کو نشا نہ بنا کر اس مہم کو نا کام بنا نے کی ہر ممکن کو شش کی گئی میں یہاں پو لیو کا ذکر اس لیے کر نا منا سب سمجھ رہا ہوں کہ اگر ہم تھو ڑا سا بھی غور و فکر کر یں تو یہ بات سمجھ سے با لا تر نہیں کہ پہلے ہماری نسلوں کو جسمانی طور پر مفلو ج کرنے کی کو شش کی گئی اور اب روحا نی طور پر مفلو ج کر نے کی کا وشیں جاری و ساری ہیں پولیو مہم اور درسگا ہوں پر حملے ہمارے ملک کی بنیا دوں کوکمزور کر نے کے منصو بے کی دوکڑیا ں ہیں جو ہما ری آ نے والی نسلوں سے منسلک ہیں۔
گز شتہ روز کر اچی اورپشاور کی تعلیمی درسگا ہوں کو نشا نہ بنا کر ہمیں خو ف زدہ کر نے کی بھر پور کو شش کی گئی بلا شبہ تما م درسگا ہوں کو اتنی سیکو رٹی فراہم کر نا ممکن تو نہیں مگر ہر ممکنہ اقدامات کر کے ہمیں اتنی سیکو رٹی انتظا ما ت کر نے ہوں گیکہ ہما رے بچے اپنے آ پ کو محفو ظ پا کر تعلیمی درسگا ہوں کا رخ کر سکیں اور ان کے سروں سے دہشت گر دوں کے حملے کا خطرہ مکمل طور پر ٹل جا ئے اگر خدانخواستہ ہم اس عمل میں ناکام رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مائیں اپنے جگر گوشوں کو اپنی آ غوشوں میں ہی سمیٹ لیں اور ہمارے مستقبل کے یہ چراغ گھروں کی چا ر دیواری کے اندر ہی محصور ہو کر رہ جا ئیں اور ہم ان چر اغوں کی رو شنی سے محروم ہو جا ئیں لیکن میرا دل اس بات کی گو اہی دے رہا ہے کہ ہما ری قو م ہمیشہ سے ایسی مشکلات کا ڈٹ کر مقا بلہ کر تی آ ئی ہے
ہمارا دشمن بھی بخوبی جا نتا ہے کہ اس کے مد مقا بل ایک ایسی قو م ہے جسے ایسے بز دلا نہ ہتھکنڈوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا وہ جا نتے ہیں کہ جہاں ہم اپنے نا پا ک عزائم کا مظا ہر ہ کر تے ہیں تو کچھ ہی دیر بعد وہا ں زندگی ویسے ہی رواں دواں ہو تی ہے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو اسلیے انھیں یہ وہم نہیں ہو نا چا ہیے کہ یوں تعلیمی در سگا ہو ں پر حملے سے پا کستان کے مستقبل کو تعلیم سے محروم کر دیں گے کیو نکے ہر پا کستانی اپنے وطن عزیز پر اپنی جا ن قر بان کر نے سے نہیں گھبراتا ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اس لیے ہمیں مو ت سے ڈرا نا انکی خو ش فہمی ہے ہر پا کستانی مسلمان خواہ وہ مرد ہو عورت ہو یا بچہ ہو ہمشہ سے شہا دت کی مو ت کاخو اہش مند ہے۔
تحریر : ساجد حسین شاہ
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631