تحریر: ساجد حسین شاہ
بے روزگازی کا اژدھا آجکل ہمارے اعصاب پر چوکھٹ جمائے ہوئے ہے اور ہمارے ملک میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس آفت سے زور آزما ہے۔ 1999.میں لیبر فوزس سروے کے مطابق پاکستان میں بے روزگار لوگوں کی تعداد 2.4 ملین تھی جسمیں بعد میں بتدر یج اضافہ ہوتا چلا گیا۔1996-97 کے مطابق unemployment ریٹ% 6.1 اور5.4 % تھا جو کہ 1994-95سے % 0.7زیادہ ہے اسی طر ح اضافہ ہوتا چلا گیااور2002 میں یہ اپنی انتہا ئی سطح پر جا پہنچا۔2002 کے سروے کے مطابقunemployment ریٹ% 7.8 تھا جو پاکستان کی تاریخ کی سب سےhigh value ہے لیکن خوش آئند با ت ہے کہ حالیہPakistan Burea of Statistic کے مطابق پاکستان میں2013 میںunemployment ریٹ میںخاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور یہ ریٹ کم ہو کر 6% کی سطح تک آ پہنچا۔ایک اندازے کے مطابق 1985 سے2013تک پاکستان میںunemployment ریٹ اوسطا 5.43% ہے لیکن قابل افسوس با ت یہ ہے کہ اب بھی 2 ملین سے زائد لوگ بیروزگاری کی مرض میں مبتلا ہیں۔
ہمارے دیہی علاقہ جات کے لوگ شہری علاقہ جات کے لوگوں کی نسبتازیادہ بیروز گار ہیں کیونکہ دیہی علاقوں میںروزگار کے مواقع بہت کم دستیاب ہیں اور وہاں انڈسٹری کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے اور دیہی علاقے کے لوگ مناسب تعلیم کی سہولیات سے بھی بری طرح محروم ہیںجبکہ شہری علاقوں میں روزگار کے مواقع نسبتا زیادہ دستیاب ہیںاور لوگوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی آسانی سے میسر ہیں۔مگر اس آفت کا شکار صرف ہم پاکستانی ہی نہیں ہو رہے بلکہ اس آفت نے پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ایک انٹرنیشنل سروے کے مطابق دنیامیںبیروزگارلوگوں کی تعداد 197 ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔کیونکہ دن بدن بڑھتی ہویٔ آبادی کے سامنے وسائل کا وجود بہت چھوٹا معلوم ہوتاہے۔اگریہ کیفیت یونہی برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ دنیا میں بیروزگاز لوگوںکی تعدادمیں خطر ناک حد تک اضافہ متوقع ہے جو پو ری دنیا کے لیے ایک عذاب کی شکل اختیا ر کر لے گا ۔بڑھتی ہوئی اس بیروزگارری کا سیلاب دنیا کی خوبصورتی کو مسخ کر دے گا اور یہ ہم سب کے لیے فکر المیہ ہے۔
ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی ایک اہم وجہ بے لگام بڑھتی ہوئی آ بادی ہے غریب اور متوسط گھرانے کے والدین زیادہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آ راستہ نہیں کر پاتے اور یہ uneducted اور unskilled نوجوان سسٹم پر بوجھ بن جاتے ہیں ٍْاس لیے ہمیں اس بات غور کرنا ہو گا اور اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو لگام لگانا ہو گاتا کہ اپنے ملک کے لیبر فورس سسٹم سے اس بوجھ کو کم سے کم کیا جائے۔اسی طرح بیروزگاری میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ عمر میں لوگوں کی ریٹائر منٹ ہے۔گورنمنٹ سیکٹر میںیہ حد60سال اور پرائیویٹ سیکٹر میں اس سے بھی زائدہے اسکی ذمہ داری تو براہ راست گورنمنٹ پر ہے گورنمنٹ کو ریٹائر منٹ کی حد عمر کم کر نا ہو گی تا کہ نئی نسل کو روزگار کے زیادہ مواقع میسر ہو سکیں بیروزگاری کو کم کر نے کے لیے ہمیں ٹیکنیکل تعلیم کو عا م کر نا ہو گا جسکیratio ہمارے ملک میں جنرل تعلیم کی نسبتابہت کم ہے ٹیکنیکل تعلیم سےSelf employment میں اضا فہ ہو گا اور یوں نوجوان سسٹم پربوجھ نہیں بنیں گے اور اسطرح وہ اپنی خدمات دوسرے مما لک کو پیش کر سکتے ہیں اسکے لیے ہمیں جاپان کے ماڈل کو اپنانا ہو گا۔بیروزگاری کی اس لعنت میں اضا فے کی رہی سہی کسر energy crisisنے پو ری کر دی ملک میں بجلی کے فقدان کی وجہ سے انڈسٹری کا وجود نا پید ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے پہلی دہائی میں پاکستان سے بہت ساری انڈسٹری دوسرے مما لک منتقل کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے ہمارے ملک کی بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ابھی تک ہم انڈسٹری کی revival کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اب حا لا ت میں قدرے بہتر ی آ ئی ہے لیکن اب بھی بہت سارے ایسے ہنگامی اقدامات کر نے کی ضرورت ہے جن سے انڈسٹری کو مستحکم کیاجا سکے تا کہ روز گا ر کے مواقعوں میں تیزی سے اضافہ ہو ۔ دہشت گرد ی کی وجہ سے بیرونی سر مایہ کاری کی کمی بھی بیروزگاری میںاضافہ کا سبب بنی لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ حا لا ت کچھ بہتری کی طرف گامزن ہوئے ہی تھے اور بیرونی سرمایہ کا روں کی توجہ پاکستان کی طرف مر کوز ہونے کو تھی کہ ہمارے ملک کو اندرونی سیاسی انتشار نے آن گھیرا اور حالات ایک بار پھر اسی ڈگر کی طرف گامزن ہو گئے آئے دن ہڑتالوں اور دھرنے کی کا لوں نے غریب لوگوںکی کمر توڑ دی ہے جب ہم کاروبار کا پہیہ ہی جام کر نا چاہیں گے تو غر یب کا چو لھا ٹھنڈا پڑے گا۔
ہمارے ملک میں ٹیلینٹ کی کمی ہر گز نہیں ہے تمام شعبہ جات قابل لوگوں سے بھرے پڑے ہیں ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ ان کی قابلیت کو کسی خاص سمت متعین کر کے ملک کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا ئے حا لیہ دنوں ہونے والے ہنگاموں میں نوجوانوں کو توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کرتے دیکھ کر دلی افسوس ہوا کاش! ہم ان نو جوانوں کی اس انرجی کو کسی مثبت اقدام کے لیے استعمال کر تے ہما رے ملک کے بہت سے قا بل انجینئرز،ڈاکٹرز،پروفیسرز اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے ملک میں مناسب روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بیرونِ ملک زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیںپاکستان میں بیروزگاری اور غربت کی وجہunskilled لوگ اور تعلیمی نظام ہے جسکی وجہ سے ہمارا living standard بہت تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے۔بیروزگاری کی ایک اوروجہ جو ناقا بل فراموش ہے۔اسکے لیے ایک واقعہ پیش نظر ہے میرے ایک جاننے والے یہاں (سعودی عرب ) ایک نجی کمپنی میں زیر ملازمت ہیں پچھلے دنوں وہ پاکستان سے چھٹی گزار کر وا پس آ ئے تو انہوں نے مجھے کال کی اس وقت میںایک سائٹ وزٹ کے لیے دوسرے شہر میں تھا ۔جب میں ریاض آیا ان سے ملنے ان کے آفس تشریف لے گیا ان صا حب نے مجھ سے کہا کہ میرا نوجوان بیٹا ہے جو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں نا کام رہا ہے جب اس بار میں پاکستان گیا تو وہ بہت پریشان تھا اور بار بار مجھے یہی کہہ رہا تھا کہ آپ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔
اس لیے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ پردیس میں محنت کریں اور میںیہاں گھر بیٹھ کر ان پیسوں پرعیا شی کر وں میںنے اپنے بیٹے کی آ نکھوں میں بہت پریشانی اورندامت دیکھی اور اس نے میری راتوں کی نیند حرام کر دی ہے اسلیے آ پ مہر بانی کر کے میرے بیٹے کے لیے کو ئی منا سب نو کر ی دیکھ دیں۔اس بو ڑھے باپ کی آ نکھ میں کچھ ایسا تھا کہ میرا دل بے تاب ہو گیا اسکی آنکھوںمیں جھلکتے آنسؤںنے مجھے اندر تک جھنجھوڑ ڈالا میں نے انھیں امید دلائی اور وہاں سے چلا آ یا لیکن وہ سب الفاظ میرے زہن کو بار بار کرید رہے تھے میں نے اپنے قریبی دوست سے را بطہ کیا جو کہ پاکستان میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اس سے سارا حا ل بیا ن کیا میرے دوست نے بھی انتہائی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے اسی دن شام کو مجھے کال کی کے اس لڑ کے کی نو کری کنفرم ہے صبح سائٹ پر بھیج دیں اور دیگر تفصیلات سے آگاہ کیا یقین جانیئے کہ مجھے اتنی خوشی ہوئی جتنی شاید اپنی پہلی نوکری ملنے پربھی نہ ہوئی ہو گی میں نے وقت ضائع کیے بنا ان صاحب کو کال کی اور تاکید کی کہ صبح ہی اپنے بیٹے کو وہاں بھیج دیں وہ صاحب بھی بہت خوش ہوئے میںنے اطمینان کا سانس لیا تین چار دن بعد اتفاقاہماری ملاقات ایک میٹنگ میں ہوئی میں نے ان صاحب سے پوچھا بیٹا کیسا ہے اور اسے نوکری کیسی لگی ان کا جواب سن کر میں ہکا بکا رہ گیا انہوں نے کہا بیٹا نہیں گیا وہ آگے پڑھنا چاہتا ہے اس باپ کی آ نکھوں میں بے بسی اور ندامت صاف واضح تھی اس لیے زیادہ لمبی چوڑ ی بات کر نے کا حوصلہ مجھ میں بھی نہ تھا لیکن میں دل میں سوچ رہا تھا کہ جو بچہ پچھلے تین سال سے تعلیم حاصل نہیں کر رہا تھا آ ج نوکری ملتے ہی اسے تعلیم کی یاد کیسے ستانے لگی یہ لمحہ فکریہ ہے ان والدین کے لیے جو پر دیس میں دن رات محنت کرتے ہیں اور جو کچھ کما تے ہیں وہ سب ان کی اولاد پاکستان میں عیا شیوں پر اڑا دیتی ہے اور جب وہ بوڑھے ہو کر اپنے وطن واپس لوٹتے ہیں تب تک ان کی اولاد کئی برائیوں کا شکار ہو چکی ہوتی ہے۔وہ اپنے بوڑھے والدین کا بوجھ تو درکنار اپنا بوجھ اٹھا نے کے قا بل نہیں رہتے میری اپنے ملک کے نوجوانون نسل سے اپیل ہے کہ خدارا اپنی اور اس ملک کی حا لت پر رحم کریں کیونکہ آپ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اس ملک کو بنانے یا بگا ڑنے میں سب سے اہم کردار آپ کا ہو گا۔
کن احمقوں کی بستی میں اپنا بسیرا ہے ساجد
حوس کی دھول سے مسخ کر دیا نقشِ وطن کو
تحریر: ساجد حسین شاہ
ریاض سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com