تحریر : مہر بشارت صدیقی
پاکستان کے معروف اقتصادی ماہرین کی طرف سے جاری رپورٹ” پاکستان ا نسانی ترقی کے شعبے میں پیچھے کیوں؟ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں ہمسایہ ملکوں سے پیچھے ہے تاہم 40 فیصد پاکستانیوں کوپیٹ بھر کر کھانا نہ ملنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ماہرین ڈاکٹر اکمل حسین، منصور احمد و دیگر کے مطابق پاکستان میں امیر لوگوں کو ہی صحت اور تعلیم کی معیاری سہولتیں ملتی ہیں، امیروں کو ہی نوکریاں ملتی ہیں اور امیروں کو ہی سرمایہ کاری کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔ اقتصادی ترقی کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے آزادی کے 68 برسوں بعد بھی 40 فیصد پاکستانی ایسے ہیں، جن کو روزانہ 2100 کیلوریز بھی میسر نہیں جو کہ انسانی سانسوں کو جاری رکھنے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے دی جانے والی پبلک سروسز اسی ایلیٹ کو مل رہی ہیں، جو ٹیکس بھی نہیں دیتے۔
اقتصادی رہداری کے نام پر چین سے آنے والے 46 ارب ڈالر کے منصوبے پاکستانیوں کی زندگیوں کو نہیں بدل سکیں گے دوسری جانب وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات میں اضافے کی سمری پر دستخط کر دئیے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کی پنجاب اسمبلی سے منظوری کے بعد بشمول سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی تنخواہ اور مراعات میں اضافے سے انکار کر دیا جبکہ وزراء کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل ہر رکن پنجاب اسمبلی کو تنخواہ اور مراعات کی مد میں ماہانہ 44 ہزار روپے ملتے تھے اور اضافے کے بعد ہر رکن اسمبلی کو تنخواہ اور مراعات کی مد میں 85ہزار روپے ملیں گے۔ پارلیمانی سیکرٹریوں کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے ملک میں روزگار ی اور بے روزگاری پر ایک حقائق نامہ جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ ملک میں قومی ادارہ شماریات نے حال ہی میں لیبر فورم سروے 2014ـ15جاری کیا ہے جو کہ قابل ستائش کاوش ہے لہذا یہ سروے ملک میں بروقت روزگار کی صورت حال معلوم کرنے میں معاون ثابت ہو اہے۔
آئی پی آر کے حقائق نامے کے مطابق 2012ـ13 اور 2013ـ14 میں صرف 13 لاکھ ورکرز لیبر مارکیٹ میں داخل ہوئے جبکہ اس سے پہلے ہر سال 15 لاکھ ورکرز لیبر مارکیٹ میں داخل ہوتے تھے۔ لہذا اس طرح مذکورہ سالوں میں تقریباً 17 لاکھ ورکرز یا تو لیبر مارکیٹ میں نہیں آئے یا پھر قومی ادارہ شماریات اس کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکا۔ 2012ـ13 اور 2014ـ15 میں 14 لاکھ ملازمتیں پیدا کی گئیں اس طرح بے روزگار ورکر کی تعداد میں 1 لاکھ افراد کی کمی واقع ہوئی جبکہ 2014ـ15کے اختتام پر ملک میں 36 لاکھ ورکرز بے روزگار تھے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح 6 فیصد ہے جبکہ 2012ـ13 میں اس میں کمی واقع ہوئی۔ لیکن اگر صحیح طریقہ سے حساب لگایا جائے تو 2014ـ15میں بے روزگاری کی شرح 8.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو کہ پچھلے 13سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
انتہائی فکر مند بات یہ ہے کہ ملک میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی شرح ان پڑھ بے روزگاروں سے دگنا سے بھی زیادہ ہے نیز اسی طرح ملک میں نوجوان اور خواتین میں بے روزگاری کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے جبکہ دیہی اور شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح میں معمولی فرق ہے 2012ـ13کے بعد خیبر پختونخواہ میں بے روزگاری میں زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ پنجاب میں بڑی تیزی سے روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے۔ مختلف شعبوں میں روزگارکے مواقع کم اور زیادہ ہوئے ہیں۔ شعبہ زراعت میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ صنعتی شعبے میں پچھلے دو سالوں میں دو تہائی ملازمتیں پیدا کی گئیں نیز سروسز سیکٹر میں بھی ایک تہائی اضافی ملازمتیں پیدا ہوئیں۔
ایک تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بے روزگار مرد حضرات کی عمریں 15 سے 29 سال تک ہیں یہ مرد حضرا ت نہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی ملازمتیں تلاش کر رہے ہیں ان نوجوان بے روزگاروں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی زیادہ ہے لہذا شائد ایسے افراد مختلف جرائم کی طرف با آسانی مائل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ بد قسمتی سے حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے مختلف یوتھ پروگرام کامیاب نہیں ہو سکے۔ خوش آئند بات ہے کہ 2012ـ13 سے اب تک چائلڈ لیبر میں 14 فیصد کمی ہوئی۔ مجموعی طور پر ملک کے اندر لیبر مارکیٹ میں منفی اور مثبت رحجان دیکھا گیا ہے لیکن اگر پائیدار طریقے سے ملک کے اندر بے روزگاری میں کمی کی جائے تو یہ جی ڈی پی کی شرح 6 فیصد سے زیادہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے لہذا پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کو چاہیے کہ وہ ہنر مند افراد پیدا کرنے اور ان کی ملازمتوں کیلئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔
پاکستان میں بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے ”انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز تھنک ٹینک’کی رپورٹ کہ 2014-15کے اختتام پر ملک میں36لاکھ افراد کے بے روزگار ہونا تشویشناک ہے۔ملک میں بے روزگاری کی شرح8.5فیصد سے تجاوزکرچکی ہے جوکہ گزشتہ13برس کی سب سے زیادہ شرح ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ملک میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی شرح ان پڑھ افراد سے زائد ہے جوکہ لمحہ فکریہ اور انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔اقتصادی ترقی کے تمام حکومتی دعوے محض سبز باغ دکھانے کے مترادف ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسی پالیسیاں مرتب کرے جن سے نئی ملازمتیں پیداہوں اس کے لئے نئے اور بڑے پراجیکٹس پر کام کرنا ہوگا۔ آرڈیننس2016کے تحت14سال سے کم عمربچوں کے اینٹوں کے بھٹوں پرکام کرنے کی پابندی اگرچہ اچھاحکومتی اقدام ہے۔
مگر یہ اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک متعلقہ حکام اس حوالے سے سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کرتے۔پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت لینا،مزدوری کروانا،یہاں تک کہ بھیگ منگوائی جاتی ہے۔اس وقت پاکستان میں15000اینٹوںکے بھٹوں پر18لاکھ مزدور کام کررہے ہیں۔پنجاب میں بھٹوں کی تعداد6090ہے جس پر ایک لاکھ 70ہزار مزدور کام کرتے ہیں۔جن میں بچوں کی تعداد23000سے زائد ہے۔ ایک طرف پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہاہے تودوسری جانب بھٹے پرکام کرنے والے جبری مزدوربچوں کی تعداد آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
پاکستان میں اس وقت بھٹوں پرکام کرنے والے مزدوربچوں کی تعداد ایک کروڑ20لاکھ اور پنجاب میں35لاکھ سے زائد ہے جبکہ14سال سے کم عمر مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد پنجاب میں23ہزارچھ سو42ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25-Aکے مطابق پانچ سال سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کومفت تعلیم دیناریاست کی ذمہ داری ہے مگر اس کویقینی بنانے کیلئے کسی بھی دور حکومت میں مناسب اقدامات نہیں کئے گئے۔
تحریر : مہر بشارت صدیقی