تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری
ماں کے بطن سے کوئی بچہ چور، ڈاکو یا دہشت گرد بن کر پیدا نہیں ہوتا وہ اسی معاشرہ میں بچپن گزارتا ہے۔ جوانی کے مرحلوں تک پہنچتے ہوئے اس کا پالامقامی چوہدریوں ،بااثر افراد ناظمین ،ایم پی اے، ایم این اے جیسے لو گوں سے پڑتا ہے۔ ماں باپ توتنگی و ترشی کی زندگی گزار کر اسے اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔ وہ جب روزگار (نوکری) کی تلاش میں نکلتا ہے۔ تو معاشرہ میںاس کا میرٹ یا قابلیت زیر بحث ہی نہیں آتی بلکہ کرپٹ بیورو کریٹوں اور زہریلی باتیں کرنے والے خونخوار رشوت خور درندوں حتیٰ کہ انسانوں کی ہڈیوں کو چھچھوڑنے والوں سے بھی کم ظرف افراد سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔
اس طرح سے بیروز گاری ملکی مسائل میں سے بڑا گھمبیر عوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ دوسری طرف محکمے وفاقی ہوں یا صوبائی سبھی پر دس پندرہ سال سے ملازمو ں کی بھرتی پر پابندی ہے ۔جبکہ بارسوخ مگر مچھوں ، برسر اقتدرا افراد اور ان کے تلوے چاٹنے والے ہم جولیوں کے لیے ایسی سیٹیں حاصل کرنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہے۔ان کے لیے صرف وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے ایسے حکم کے اِجراء کی ضرورت ہوتی ہے جس میں تمام قوائد و ضوابط کو معطل کرکے کسی بھی نااہل ترین فرد کو بھی اعلیٰ ملازمت پر بھرتی کرلیا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں علیحدہ بھاری رقوم ناظمین ،ایم پی اے یا ایم این اے کی جیبوں میں چلی جاتی ہیں اور وزیر اعلیٰ صرف اس لیے صرف نظرکرتے رہتے ہیں کہ متعلقہ سفارشی شخص ان کی سیاسی تابعداری ہی نہیں بلکہ غلامی تک کر رہا ہے جب پہلی دفعہ نواز شریف وزیر اعلیٰ بنے تھے تو ہر ووٹر ایم پی اے سے حلفاً اقرار کیا گیا تھا کہ اس کے کہنے پرلازماً ایک نائب تحصیلدار ،ایک اے ایس آئی پولیس کی بھرتی ہوگی۔اور ایم پی اے حضرات نے اپنے حلقوں میں اس کی بو لی لگائی اور لاکھوں روپے وصول کرکے یعنی مردار گوشت اپنے بچوں کو کھلایا۔محترمہ تو بعد میں مٹنے والی پنسل سے سادے کاغذ پربھرتی کے پروانے جاری کرتی رہیں تاکہ ثبوت ہی نہ مل سکے اور ایسے احکامات کسی عدالت میں چیلنج بھی نہ کیے جاسکیں ۔غرضیکہ ہر مقتدر شخصیت نے چمڑے کے سکے چلائے اور اپنی رعو نت دکھاتے رہے عام آدمی کے لیے بھرتی کے قوائدو ضوابط کو پورا کرنایااس سے ہٹ کربھرتی ہو جانا پہاڑ پر چڑھ دوڑنے یا چاند پر پہنچ جانے سے بھی مشکل مرحلہ ہے۔
غریب کے دھکے کھاتے کھاتے پائوں چور ہوجاتے ہیں اور بڑی عمارتوں کے باہرلگے ہوئے بورڈ ز پر لکھا ہوتا ہے کہ ملازمتوں پر تا حکم ثانی پابندی ہے۔مگر اندر کھاتے ساری حرام زدگیاں یعنی جعلی بھرتیاں ہوتی رہتی ہیں ۔اور اعلیٰ ملازمتیں جہاں پر دن رات حرام کی کمائی یعنی سور کا گوشت کھانے کو وافر مقدار میں ملتا رہتا ہے۔ ان میں اے ایس آئی پولیس ،نائب تحصیلدار ،انکم ٹیکس انسپکٹر وغیرہ زیادہ بدنام زمانہ ہیں۔جن پراگر کوئی غریب کا بچہ آج تک بغیررشوت دیے بھرتی ہواہے تو یہ تاریخ کا انوکھا واقعہ ہی ہو گا ۔کسی نے مال مویشی اور ماں ،بہن کے زیور یا کوئی مکان دوکان یا زمین کا ٹکڑا بیچا۔پھرمقامی حکومتی ٹائوٹوں کے ذریعے بھاری رشوتیں دے کر ہی بھرتی ہو سکے ہیں۔( حدیث مبارکہ کی رو سے رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں )اب جب پو لیس مال بناتی ہے اور انکم ٹیکس والے اور نائب تحصیلدار لاکھوں روپے بٹورتے ہیں توعوام چیختی چلاتی ہے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہو رہا ہے۔
حالانکہ قطعاً جہنمی ایسے ملازمین لو گوں کی چمڑیاں نہ ادھیڑیں تو اور کیا کریں ۔لگا ہوا مال تو نکالنا ہی ہے اور آئندہ کے لیے بھی بنانا ہے۔یعنی حرام دیاحرام بنایااور حرام کھایااور بچوں کو کھلایاکا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔اسی طرح انتخابات میں ایم پی اے ایم این اے بننے کے لیے کروڑوں کا خرچہ ہے۔ جب کوئی صنعتکار یا کارو باری شخص اس مذموم سیاسی کاروبار میں انویسٹمنٹ کرتا ہے تو وہ بھلا کیوں بغیر رشوت لیے بھرتیاں کرے گا یا کروائے گا۔ ایسا ممبر آپ کے جائز کام بھی کرے گا تولامحالہ اسے تواپنا لگا دام کھرا کرنا ہے۔ اور آئندہ پھرانتخابات میں ممبر بننے کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت پڑے گی ۔وہ آپ کی غربت کو کیا جانے اور آپ کس باغ کی مولی ہیں جو بد کردار اشخاص انگریزوں کے افسران کی تابعداری کرتے کرتے حتیٰ کہ اپنی سگی ماں بہنوں بیٹیوں کو بھی فرنگیوں کی تابعداری کروا کر جاگیریں حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ پھر اپنے مزارعین کھیت مزدوروںاور اپنی نام نہاد رعایا سے بھی وہی رویہ اختیارکرنااپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور ان کے لیے اپنی راج دھانیوں میںمقتدر رہناتا کہ تھانیدار ان کے مذموم مقاصد پورے کرتے رہیں اور بد کردار و ڈیروں کو حصول مقاصد کے لیے یہی سب سے اہم مسئلہ ہوتا ہے۔
بعد میں منتخب ہو کر وہ نئی پکی سڑ کوں کے پتھر تک ہضم اور کول تار(لُک)تک پی جاتے ہیں ۔جتنا کم میٹریل استعمال ہو گااتنا ہی پیٹ میںحرام مال زیادہ جائے گا۔جلدی سڑک ادھڑ جائے گی یاسرکاری عمارت بوسیدہ ہو گی اور مرمت کی مد میں دوبارہ مال بنانے کا موقع ملے گا۔ایسے سود خور و حرام خور ممبران اسمبلی ملازموں کے گیدڑ پروانے تو اپنے ہم جولیوں میں بانٹتے ہیںتاکہ غریب کا کوئی بچہ افسر نہ لگ سکے۔اگر غلطی سے وہ افسر لگ گیاتو اسے بچپن میں اس کے والدین کے ساتھ رکھا جانے والارویہ یاد آتا رہے گا۔اور وہ کہیں ممبر صاحب کو آنکھیں نہ دکھانے لگ جائے ۔ایسے بچوں کی بھرتی میںاصلاً یہی معاملہ درپیش رہتا ہے۔سٹیل مل کارپوریشن ،پی آئی اے و دیگر وفاقی محکموں میں ہر دور کے سیاسی حکمران ریٹائرڈ افسران کو کنٹریکٹ پربھرتی کرتے چلے آرہے ہیں ۔مگر باصلاحیت ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جو کہ ان ڈوبتے ہوئے محکموں کی کشتی کومنجدھار سے نکال سکتے ہیں انھیں ملازمتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔
ہر حکمران پارٹی اپنی چند کالی بھیڑوں کوافسران کے روپ میں اربوں روپوں کی کرپشن کے لیے ایسے ادروں میں گھسیڑ رکھتی ہیں اور ان سرکاری نوازشات کے جواب میں وہ کھلم کھلا بد عنوانیاں کرکے اپنے مزیدحواریوںکوبھی ان اداروں میں انجیکٹ کرتے رہتے ہیں۔ایسے افراد خواہ کام کرنے کے قابل بھی نہ رہیںاور ان کے اعضاء تک ہلنے سے معذور ہو جائیںمگر وہ ادارے میں ہر صورت مو جود رہتے ہیں۔اس طرح سے قابل نوجوان جو عرصہ دراز سے سود خور صنعتکاروںانگریزوں کے پالتو کرپٹ وڈیروں کے مقتدر ہونے کی وجہ سے مسلسل ملازمتوں سے محروم چلے آرہے ہیں ۔انھیں چور ،ڈاکو،دہشت گردحتیٰ کہ خود کش بمبار بننے میں بھی کوئی عار نظر نہیں آتا کہ معقول مشاہرہ ملتا ہے اور گھر بھیجنے کے لیے وافر رقوم بھی اور بعض تو مخصوص ڈاکو اور اغوابرائے تاوان والے گروہوں میں بھرتی ہو کر لاکھوں کما رہے ہیں ۔انہی کی دیکھا دیکھی اب تو دیہاتی غیر آباد سڑکوں پرسر شام ہی ایسے کن ٹُٹے بدمعاش گروہوں کے افراد گھومتے نظر آنے لگتے ہیں ۔تاکہ موبائل بمع رقوم چھین سکیں اور کوئی جد ید ماڈل کا موٹرسائیکل بھی ہتھیا سکیں۔کہ یہ کسی بھی ملازمت کرنے سے بھی بہتر روزی کا آسان ” نسخہء کیمیا “ہے ۔اس لیے نوجوان نسل بگڑتی جارہی ہے کہ انھیں روزگار ملتی نہیںاور مال کمانے کا یہ آسان طریقہ ہے ۔صرف ریوالوریا پستول کی ضرورت ہوتی ہے ذرا دھمکا کر موٹر سائیکل چھیننا ،موبائل اور رقوم ہتھیاناان کے بائیںہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔
اگر کسی لٹتے شخص کی جیب سے معقول رقم بر آمد نہ ہو تو پھرایسے مظلوم شخص پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کے علاوہ لتر پریڈ بھی کی جاتی ہے۔سود خور سرمایہ دار حکمرانوں کو اپنی صنعتکارانہ کاروائیوں اور ہمہ وقت مال بنانے والی سکیموں سے فرصت ملے تو ادھر توجہ کرسکیں ۔ اور اب تو تمام کرپٹ نودولتیے سیاستدان نواز ہو یاعمران پیسے والوں کی قدر جانتے ہیںاور کوئی ذاتی ہوائی جہاز والا قابو آجائے اور انھیں اڑائے لیے پھرتا رہے اور ہزاروں ایکڑ زمین والا جاگیر دار شامل ہو جائے تو انھیں پارٹی کے مرکزی عہدوں نائب صدر اورسیکریٹری جنرل بنانے میں دیر نہیں کرتے۔دوسری طرف غریب کارکنان جنھوں نے بھرتی کے لالچ میں سیاسی لیڈر کے نعرے ،سروں اور جیبوں پر فوٹو لگائے اورجھنڈے بلندکیے اورجلسوں میں دریاں ٹینٹ ڈھوتے رہے وہ سیاسی لیڈر کی بُلٹ پروف گاڑی کی دھول بھی چاٹتے رہے مایوس ہو کرانھی لیڈروں کے بنی گالائی،جاتی امرائی اور زرداری محلات کا گھیرائو نہ کریںگے تو اور کیا کریں گے۔کہ ان کا لیڈر ان کی محنتوں سے اقتدار کے جھولے جھول رہا ہے اور وہ نان جوِیں کو ترستے ہوئے بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔
بعض مایوس نو جوانواں کو بے کار اور ملازمتوں سے محروم رہ کر منشیات اور بری صحبت کی لت پڑجاتی ہے جن کے لیے انھیں پھر بھاری رقوم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ پینے پلانے کے ساتھ قیمتی منشیات کی فروختگی بھی شروع کردیتے ہیں اور بھوک تو انسان کو کفر تک بھی لیجا سکتی ہے ۔نوجوانوں نے عمران کا ہاتھ تھاما اس کے قدم سے قدم ملایا مگر اب انھیں سخت مایوسی اور ناکامی کا سامناہے۔کرپٹ صنعتکار ،سود خور نو دولتیے،غلیظ بدمعاش وڈیرے شامل ہو کرکارکنوں کو آئوٹ اور عمران کو اقتدار سے محروم کر رہے ہیں ۔ان حالات میں غریب کارکن کیا بھاڑ جھونکے گا ایک ہی راستہ باقی ہے کہ اللہ اکبر کا جھنڈا تھام لیں اور ملک کو وڈیرہ شاہی سے نجات دلانے کے لیے بُلٹ کی جگہ بیلٹ کا استعمال کرکے اللہ اکبر کی ہی تحریک کو مقتدر بنا ڈالیں تاکہ ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بن سکے جس میں کوئی بھوکا ننگا اور بغیر چھت کے نہیں سوئے گابے روزگاری ختم ہو گی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت کم ہو کر 1/5 رہ جائے گی جبکہ ہر مزدورکی تنخواہ ماہانہ پچاس ہزار روپے سے کم نہیں ہو گی۔تعلیم ،علاج ،انصاف، بجلی،گیس ہر شخص کو مفت مہیا ہو گی۔وما توفیق بااللہ
تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری