تحریر : سید توقیر حسین
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کوئی بھی تیسرا ملک ایران اور پاکستان کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا، ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست کے ساتھ ملاقات میں وزیر داخلہ نے دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں کی نگرانی اور معلومات کے بروقت تبادلے کے نظام کو مزید موثر بنانے پر زور دیا، پاکستان میں ایک لابی مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب ہوگئے ہیں اور پہلے کی طرح نہیں رہے، ان کا خیال ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی کے دورہ اسلام آباد سے ذرا پہلے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے معاملے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں خرابی کی صورت پیدا ہوئی۔ اسی طرح طالبان رہنما ملا اختر منصور ایران کے دورے سے واپسی پر نوشکی کے قریب ڈرون حملے میں مارے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی جاسوس اپنے گلے میں جاسوس کی تختی لٹکا کر تو ایران میں گھوم پھر نہیں رہا تھا، وہ اگر کسی کور نام کے تحت وہاں رہ رہا تھا اور اپنے آپ کو تاجر ظاہر کرتا تھا تو ضروری نہیں ہے کہ ایرانی حکام اس کی اصلیت سے بھی واقف ہوں۔ ہمارے ہاں پہلے تو مفروضے قائم کئے جاتے ہیں، پھر ان پر ایک ریت کا محل تعمیر کیا جاتا ہے۔
ہمارے لئے تو برادر اسلامی ملک ایران کی یہ وضاحت کافی ہونی چاہئے کہ متعلقہ حکام کو کلبھوشن یادیو کی سرگرمیوں کا کوئی علم نہیں تھا، لیکن ہمارے ہاں بعض لوگ یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ایرانی حکام سب کچھ جانتے تھے، پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب پاکستان اور ایران کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔ مفروضوں کی یہ عمارت حقائق کے نیچے دب کر اس وقت دھڑام سے گر پڑتی ہے جب چینی وزیراعظم کہتے ہیں کہ بھارت ایران کی جس چاہ بہار بندرگارہ پر سرمایہ کاری کر رہا ہے اس سے پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے مفاد کو کوئی خطرہ نہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت گوادر کی بندرگاہ کا انتظام و انصرام چین کے سپرد ہے اور چینی وزیراعظم کی سوچ ہمارے لئے رہنما ہونی چاہئے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ تمام تر چینی سرمایہ کاری سے مکمل ہوگا۔ اس لئے چین کا وزیراعظم اگر پورے لینڈ سکیپ کو سامنے رکھ کر گفتگو کر رہا ہے تو ہمیں اس میں پوشیدہ حکمت عملی کو سمجھنا چاہئے لیکن ہم ہیں کہ نریندر مودی کے چند مسلمان ملکوں کے دوروں امریکی پارلیمنٹ سے خطاب اور چاہ بہار کے افتتاح کی تختی لگا دینے سے ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دینا شروع کر دیا ہے اور پھر اس کا جواز اس بات میں تلاش کر رہے ہیں کہ ایسا اس لئے ہے کہ ملک کا کوئی وزیر خارجہ نہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا یہ دنیا میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم نے بوجوہ وزارت خارجہ کا عہدہ اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان جب یہ بات کرتے ہیں تو کیا انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کون پاکستان کا وزیر خارجہ تھا؟
جواب میں وہ عزیز احمد کا نام لیں گے جو وزیر مملکت تھے۔ گویا پورا وزیر خارجہ اس وقت بھی نہیں تھا۔ اگر بھٹو کے عہد میں ایک وزیر مملکت وزارت خارجہ چلا سکتے تھے تو موجودہ دور میں سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کیوں نہیں چلا سکتے؟ عزیز احمد کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے جن سے سرتاج عزیز اور طارق فاطمی محروم ہیں؟ پھر بعد کے ادوار میں جو وزرائے خارجہ رہے انہوں نے خارجہ پالیسی میں کیا ہیرے موتی ٹانک دئیے تھے جو اب ٹنگے ہوئے نہیں ہیں؟ کیا یہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا ثبوت نہیں کہ اس وقت کھل کر دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن کہا جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جا رہی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی ملک کے حاضر سروس افسر کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور وہ تلملا کر جاسوس تک قونصلر رسائی مانگ رہا ہے اور پاکستان یہ رسائی نہیں دے رہا۔ بھارت بات چیت سے انکار کر رہا ہے اور پاکستان کا کہنا ہے ٹھیک ہے بات کرنی ہے تو کشمیر سمیت تمام باہمی معاملات پر ہوگی، نہیں کرنی تو نہ کرو۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے اس نے پاکستانی چوکیوں پر فائرنگ کرکے پاکستان کے ایک قیمتی فوجی افسر کو شہید کر دیا اور بیس کے قریب اہلکار زخمی کر دئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے افغان افواج کو کس طرح جواب دیا اور اسے اپنے اس اقدام کی کیا قیمت ادا کرنا پڑی؟ پاکستان نے سرحد کے ساتھ اپنے علاقے میں سکیورٹی گیٹ لگایا ہے اور سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ سکیورٹی گیٹ صرف طورخم پر نہیں 2500 کلومیٹر لمبی سرحد پر کئی جگہ لگیں گے۔
کیا پاکستان نے افغانستان کی اوچھی حرکت سے خائف ہوکر اپنا موقف بدل لیا کہ اسے خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا جائے؟ بعض لوگوں کو اس امر سے بڑی حیرت ہوئی ہے کہ نریندر مودی نے امریکی کانگریس سے خطاب کر دیا، کیا مودی پہلے سربراہ حکومت ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا؟ امریکی کانگرس سے تو اسرائیلی وزیراعظم بھی خطاب کرچکے ہیں جنہیں دعوت براہ راست کانگرس نے دی تھی اور صدر اوبامہ تک کی بات نہیں مانی گئی تھی تو کیا اوبامہ کو اس پر کوئی شرمساری تھی کہ ان کی خارجہ پالیسی ناکام ہوگئی؟ کانگرس نے ایران ڈیل آج تک نہیں مانا تو کیا سال ہا سال کی اس مشق کو ناکام امریکی پالیسی کہا جائیگا؟ مودی نے خطاب کر دیا تو کیا ہوا؟ یہ وہی امریکہ ہے جس نے جنرل ایوب خان کا استقبال بھی اس دھوم دھام سے کیا تھا کہ کئی سال تک اس کے چرچے رہے لیکن اسی ایوب خان کو چند برس بعد ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز” لکھ کر امریکہ کے خلاف اپنے جذبات ظاہر کرنے پڑے۔
تجزیاتی رپورٹ نیوزایجنسی بی این پیکے مطابق خارجہ پالیسی کوئی جامد و ساکت اور غیر متحرک چیز نہیں ہوتی، نہ یہ کوئی چھوئی موئی ہے کہ ہاتھ لگانے سے غائب ہو جاتی ہے۔ کوئی یہ تو بتائے جب پاکستان چین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوگا اور چین پاکستان کے اندر 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کرے گا اور گوادر سے خنجراب تک تیل کی پائپ لائن بچھانے کا خواب دیکھے گا تو اس کی چبھن کہیں نہ کہیں تو محسوس ہوگی۔ اب جن کے سینوں میں درد اٹھے گا وہ اگر آہ بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ لیکن اس سے کہاں واجب ہوگیا کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو ناکام کہہ دیں اور تنہائی کا نام دینے لگے۔ کیا اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کہا جائیگا یا کامیابی کہ پاکستان معروضی حقیقتوں کو تسلیم کرکے مستقبل کی سپرطاقت چین کے ساتھ کھڑا ہے اور روس کے ساتھ ماضی کو فراموش کرکے تعلقات اس حد تک بہتر کرچکا ہے کہ وہ روس جو پاکستان کو ایک بندوق دینے کا روادار نہیں تھا اور کئی عشروں تک اسلحے کی فروخت پر پابندی لگائے رکھی تھی، پاکستان کو جدید ترین ہیلی کاپٹر اور طیارے فروخت کرنے پر تیار ہے۔ لاہور اور کراچی کے درمیان 2 ارب ڈالر کی لاگت سے گیس کی پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے۔ پاکستان نے قطر سے جو گیس خریدی ہے اسے جو جہاز پاکستان لے کر آرہے ہیں ان کی ٹیکنالوجی دنیا کے صرف پندرہ ملکوں کے پاس ہے، ان پندرہ ملکوں میں پاکستان کا شمار ہونا کیا خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے؟ پاکستان سرن کا بائیسواں رکن ہے جو فزکس کا باوقار عالمی ادارہ ہے، پاکستان اس ادارے کا رکن موجودہ دور میں بنا۔
افسوس کہ پاکستان میں اس رکنیت کا جشن نہیں منایا گیا، شاید کسی نے اس اعزاز کو معمولی جانا جو ہرگز معمولی نہیں، جبکہ بھارت آج تک اس ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود ناکام ہے اور قارئین محترم کیا آپ کو معلوم ہے کہ مودی کی پھرتیوں اور امریکہ کی کھلی حمایت کے باوجود بھارت کو نیو کلیئر سپلائرز گروپ کا رکن نہیں بنایا جاسکا اور یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ پاکستان اس ادارے کی رکنیت کے لئے زیادہ بہتر طور پر کوالیفائی کرتا ہے۔ اگر بھارت کو رکنیت دینی ہے تو پاکستان کو بھی ساتھ ہی دی جائے۔ کیا اسے خارجہ پالیسی کی ناکامی کہا جائیگا؟ یہ تو حسینوں کے حسن کی کرشمہ سازیاں ہیں جو موجودہ خارجہ پالیسی کو ناکام کہنے کو اپنی اداؤں کا کرشمہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ خارجہ پالیسی مدافعانہ نہیں جارحانہ ہے، معذرت خواہانہ نہیں، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی بنیاد پر حوصلہ مندانہ اور جرآت مندانہ ہے۔ کسی کے نزدیک اگر خارجہ پالیسی رنگ بھرنگے برانڈڈ پرسوں اور میچنگ جیولری کی نمائش کا نام تھی تو یہ اس دور کی ضرورت نہیں، ممکن ہے آئندہ کسی وقت ایسی ڈپلومیسی کی ضرورت پھر پڑ جائے، فی الحال یہ سکہ رائج الوقت نہیں۔
تحریر : سید توقیر حسین