تحریر: رانا ابرار
بین الاقوامی سطح پر مذہب آزادی کے پیروکار وں کا ایک نظریہ آزادی، اظہار رائے بھی ہے اور انکا نشانہ سب سے زیادہ تاریخی معتبر ہستیاں ہیں وہ آزادی اظہارے رائے کی آڑ میں جس کو دل کرتا ہے لتاڑ ڈالتے ہیں اور یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ جس شخصیت کے بارے میں وہ بھونڈے اور بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں ان کی عزت، حرمت، اہمیت دوسرے حلقوں کے ہاں کتنی ہے۔ نتیجہ جانتے ہوئے بھی بار بار سورج کے سامنے بلب روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مخصوص حلقوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں اور ایسا کر کے انکو خوشی ہوتی ہے۔ ایک اچھا کمپیوٹر ڈیزائنر لو اور جس کا مرضی چاہئے جس طرح کا بھی خاکہ تیار کروائو۔
بندر کے ہاتھ ماچس والی بات ہے ۔اور اوپر سے امن ، امن کا درس بھی دیتے ہیں پہلے خود ہی آگ لگاتے ہیں اور سوچتے یہ ہیں کہ وہ اس سے کوئی فائدہ لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ خود ہی اپنے ہاتھ جلا لیتے ہیں ۔اور پھر اپنے ان جلے ہوئے ہاتھ دنیا کو دکھاتے ہیں اور واویلا مچاتے ہیں کہ ہم پر بہت ظلم ہوا۔ کس نے کہا تھا کہ اتنی آگ جلائو جس کو قابو میں کرنا تمہارے بس سے باہر ہے ۔اپنے کئے کا قصور وار بھی مخالف کو ٹھہراتے ہیں اور اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے بلکے اسے آزادی اظہار رائے کہ کھاتے میں ڈالتے ہیں ۔ طاقت کا بے جا اور یکطرفہ استعمال ہی اصل میں آزادی اظہارے رائے ہے جس کے پاس طاقت ہے اس کی آزادی اظہارے رائے ہے جس کے پاس یہ نہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں کوئی کسی کے بارے میں کہہ کر تو دیکھے دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالنا بس بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اپنی مرضی سے جو دل کرے کہتے جائو لیکن جب دوسرا کہے تو وہ بُرا۔جس کی لاٹھی اسکی بھینس ہے ۔ ابھی کچھ لوگوں کو میری باتیں بُری بھی لگیں گی ۔وجہ جب ہم اپنے ماں باپ کے بارے میں خواہ وہ اچھے ہیں یا بُرے ہیں کسی کے منہ سے ایسی بات سننا پسند نہیں کرتے جو انکی شان کے خلاف ہو یا کوئی ایسا فعل بھی ہمیں اچھا نہیں لگتا تو کیوں ہم اسکو برادشت نہیں کرتے؟ ۔لیکن کچھ شخصیات جن کے کردار کی اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ہوں ان مقرب ہستیوں کا مقام اگر اپنے والدین سے بھی بڑا مانا جاتا ہو تو کیوں کر کوئی بھی ان کی شان میں نازیبا الفاظ برداشت کرے گا یا ایسا عمل بھی جس میں تحقیر آمیز ، توہین آمیز یا تضحیک آمیز مواد شامل ہو تو کیوں کر برداشت کیا جائے گا۔
آزادی اظہاررائے کا عام اور معتدل نکتہ نظر میں کیا ہو سکتا ہے ؟۔ہمیں یہ بتایا جاتاہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہوں اس کے دائرہ کار کے اندر ہر طرح کے معاملات خواہ معاشی ، معاشرتی ، سماجی ،مذہبی ہوں ان معاملات میں ہر کسی کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہونی چاہیے،جس میں وہ شخص کچھ حدود قیود کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا موقف سامنے رکھ سکے اور ایک طرح سے ہم اسے جمہوریت بھی کہہ سکتے ہیں ۔یہاں تک کہ کسی کی ذات پراور کسی شخصیت پر تنقید کرنا بھی اس کے زمرہ میں آتا ہے۔اس سے ہر طرح کے معاملات اور ان کے مختلف پہلووں پر روشنی پڑتی ہے تا کہ اس کی بدولت ان میں سے کسی بھی قسم کے مسئلے کا مثبت حل نکالا جا سکے۔
لیکن جہاں پر اسکا استعمال مثبت ہوسکتا ہے وہاں پر اسکا استعمال منفی بھی ہو سکتا ہے۔جس طرح ایک ریاست کسی دوسری ریاست کے معاملات میں خارجہ پالیسی اور انٹرنیشنل لاء کی اجازت کے بغیردخل اندازی نہیں کر سکتی ایسے ہی کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ذاتیات اوراس کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں رکھتا کیونکہ وہ اس کی زندگی ہے جیسے چاہئے گزارے کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی دوسرے کی ذاتی زندگی میںخلل کا باعث بنے۔یہاں تک یہ کہا جاتا ہے ،جیو اور جینے دو!۔ جہاں تک میری معلومات ہیںاس کی بنیاد پر میں یہ بات کرتا ہوں یہ بلکل درست ہے ایسا ہی ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ،کسی کی آزادی رائے کسی دوسرے کے لئے مسئلہ بن سکتی ہے ۔میں اگر کوئی ایسی بات کہہ جاوں جس سے کسی کی دل آزاری ہو تو کیا میرا یہ عمل ٹھیک ہو گا ؟ جبکہ میری کہی ہوئی بات بالکل صحیح اور درست ہو اور اسکو کہنا بھی لازمی ہو تب کیا ہو گا؟ ا ن پہلووں کو دیکھا جائے تو بعض اوقات ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ نظریہ غلط ہے اور اس کی وجہ بہت سے معاملات کو ہوا ملتی ہے خاص کر کے سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں میں تب کیا کرنا ہو گا ؟ہماری ذمہ داری کیا ہوگی ؟ایک طرح سے ٹھیک بھی ہے اور ایک طرح سے غلط بھی عجیب کشمکش ہو گئی نا! وجہ اسکی یہ ہے کہ ہر بندہ ہر کام کو سر انجام دینے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی لازمی امر ہے اگر ایک بندہ اسپر عمل کرے تو دوسرا اس سے متاثر ہوگا ۔ ایک کی کہی ہوئی بات دوسرے کے مخالف رائے بھی ہو سکتی ہے اور بعض معاملات میں اس سے اختلافات بڑھتے ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا معاملہ حل ہونے کے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے اس لئے ہر شخص کو یہ حق نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے… جیو اور جینے دو….کے برعکس معاملات تشکیل پاتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم کسی قصاب سے کہیں کہ بھائی صاحب ملکی سیاست پر رائے دو ، تو یہ عجیب بات ہوئی نا! اتنے پڑھے لکھے اور ماہر لوگ کیا مر چکے ہیں جو میں اس قصاب سے رائے لوں۔ دوسرا میں کسی دانشور سے یہ کہوں کہ جناب بکرے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کیسے تیار کیا جاتا ہے ؟ تو یہ بھی نامناسب بات ہے۔اصول یہ کہتا ہے کہ میں قصاب سے اس کی فیلڈ کے بارے میں معلومات حاصل کروں ایسے ہی کسی دانشور سے اسکے شعبہ کے متعلق ۔کیونکہ جو جس میدان کا ماہر ہے وہ اس کے بارے میں دوسرے سے معلومات بھی زیادہ رکھتا ہے اور بہتر طریقے سے کسی دوسرے شخص کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاںدر حقیقت ایک قصاب ملکی سیاست پر اور مذہب پر رائے دینے میں بہت مہارت رکھتا ہے ۔ اس طرح کے لوگوں اورانکی باتوں کو ذہن میں رکھیں اور ذرا روشنی ڈالیں کیا ہوتی ہے یہ آزادی اظہار رائے ؟۔ صرف مسائل ہی بڑھیں گے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جن کو سمجھے بغیر آج ہر بندہ اسکو استعمال کرتا ہے اور سمجھتا ہے یہ میرا حق ہے اور ہر معاملے میں اپنی رائے ٹھونس دیتا ہے ۔جب ہمیں کسی بات کا علم نہیں ہو گا اور ہم اس پر فضول میں ضد لگاکر کچھ کہہ جائیں گے تو بعض اوقات ہمیں خود معلوم نہیں ہو گا کہ جو ہم نے کر دکھایا ہے اسکی وجہ سے دوسروں پر کیا گزری اور کتنا نقصان ہو گیالیکن اس کے باوجود ہم باز نہیں آتے۔
اب آتے ہیں دوسری طرف ہم دیکھیں گے کہ جب بھی مذہب کے پیرو کار اپنی بات کرتے ہیں تو انکو کہا جاتا ہے کہ فسادی ہیں اور انتشار پھیلا رہے ہیں لیکن جب ان پر اس طرح کے الزامات لگانے والے یہ خود کرتے ہیں تو کوئی بات نہیںوہ ان انکی آزادی ہے ۔وہ رائے دیں تو ٹھیک ہے انکا حق ہے لیکن جب کوئی مذہبی بات کرے تو وہ قدامت پسند ،شدت پسند ،بنیاد پرست کہلاتا ہے ۔انصاف کا یہ دوہرا معیار کیوں ہے۔اصل بات آزادی اظہارے رائے سے کھلی مخالفت نہیں بات یہ ہے اس کے پیچھے جو لوگ اپنے مزموم مقاصد اور ارادوں کو پورا کرنے کی جو کوشش کر رہے ہیں اس کوشش اور سوچ سے ہماری کھلی مخالفت ہے۔
تحریر: رانا ابرار