تحریر : عفت بھٹی
میں ایک لکھاری ہوں اور ادب سے وابستہ ہوں، ہمیشہ سے کوشش کرتی ہوں کہ معاشرے میں لگنے والی گھاتوں سے اس دیس کے رہنے والوں کو جو میرے اپنے ہیں آگاہ کروں انہیں باخبر رکھنے کی ادنی سی کوشش کرتی کہ یہ ان کا حق اور میرا فرض ہے ۔میں نہ کسی جماعت سے وابستہ ہوں نہ کسی کی بے جا حمایت کرتی ہوں میرا نصب العین اور وابستگی صرف اپنی قوم اور انسانیت سے ہے سو جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے آج جس گھمبیر مسئلے کی نشان دہی کے لیے میں نے قلم اٹھایا بہت نازک مسئلہ ہے ،نہ جانے میں اس سے انصاف کر پائوں گی یا نہیں اس کا فیصلہ آپ پہ چھوڑتی ہوں آپ سب جانتے ہیں کہ ترقی کا دارومدار علم پہ ہے ہماری نسلیں اس ہتھیار کے بغیر ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں ہو سکتی اس لیے ہمیں کمزور کرنے کے لیے ہمارے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا اور اس کے نتیجے میں ہمارے ادارے غیر محفوظ قرار پاتے ہیں اور اچھے بھلے چلتے چلتے سیکورٹی خدشات کے تحت بند کروا دئیے جاتے ہیں اس کے باعث ہمارے بچوں کی تعلیم تعطل کا شکار ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ عوامل ایسے ہیں جو ہمارے اپنے ہوتے ہوئے ہمیں اندر ہی اندر سے کاٹ رہے ہیں اور میرے نزدیک یہ دشمن یا بھٹکے ہوئے لوگ ذیادہ خطرناک ہیں ۔استاد بے حد محترم نام اور بے حد قابلِ قدر پیشہ میں خود اس پیشے سے وابستہ ہوں ۔میرے طالبعلم ،میری قوم و ملک کا مستقبل ہیں میں بھرپور کوشش کرتی ہوں کہ ان کی رہنمائی کروں ۔ماں باپ تو جنم دیتے ہیں مگر استاد انہیں جینا سکھاتے ہیں ان کی فطرت کو مثبت طریقے سے نکھارتے ہیں ایک خام سے ڈھانچے کی تعمیر کہ اس کی خوبیوں کو اجاگر کر کے خامیوں کو مثبت طرزِ عمل میں ڈھالنا ہی ایک استاد کا کام ہوتا ہے ۔ مگر قابل ِ ندامت اور قابلِ مذمت بات یہ کہ ہم اس فرض کو پورا نہیں کر رہے ۔سب سے پہلے تو ہم تعلیم دینے میں کوتاہی کر رہے اور پھر امتحانوں میں نقل کا درپردہ انتظام خاص طور پہ گورنمنٹ استاد اس میں ملوث ہوتا۔
پہلے ہم نقل کرواتے اور پھر بچے اسے ہمیشہ کے لیے اپنا لیتے ۔اب بچہ سکول لیول سے نکل کہ کالج اور پھر یونیورسٹی کی فضا میں قدم رکھتا ہے اور یہ فضا قدرے رنگین ہوتی ہے اور اپنی اقدار اور منزل سے ہٹنے کے لوازمات سے بھرپور ہوتی ہے ۔یہاں استاد اور شاگرد کے مابین احترام کے رشتے کے ساتھ ساتھ ایک دوستانہ رشتہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کیوں کہ یہ عمر انانیت اور خوسری کی عمر ہوتی خوابوں کی ہمراہی تقاضہ کرتی کہ نرمی سے کام لیا جائے اور خوشگوار ماحول میں تعلیم وتدریس کا عمل جاری رکھا جائے سختی نقصان دہ بھی ہوسکتی۔اب میں اصل موضوع کی طرف آتی ہوں کہ قارئین بے جا طوالت کا شکار نہ ہوں تو صاحبان بات ہو رہی یونیورسٹی کی ،یہ وہ جگہ جہاں ایک پودا نمو پا کے پہنچتا ہے حاصلِ ثمر قریب ہے ایک شخصیت ایک کردار کا سانچا دم پخت ہے بس ہلکی سی آنچ کی کسر ہے۔
یہاں تعلیم ڈیپارٹمنٹ میں تقسیم ہو جاتی ہے ہر کوئی اپنے رحجان اور صلاحیت کے مطابق اس کا چنائو کرتا اور مستقبل کی سیڑھی پہ قدم رکھتا ہے اب یہاں استاد کا کردار کیا ہے ؟ایک دوست نما گائیڈر جو راستہ دکھائے۔اب بھٹکنے کے لوازمات بھی ہیںکیونکہ شخصی آزادی ہے ،کھلا ماحول ہے ،کو ایجوکیشن ہے ،فطری تقاضے ہیں ،کشش ہے اور سب سے بڑھ کے بے خوفی ہے ۔کوئی پوچھ تاچھ نہیں ،استاد ہمہ وقت سر پہ نہیں ،کلاسیں لو یا بنک مار لو مولا بخش سر پہ نہیں ہو گا سو ایک ایسی آزادی جس میں کوئی روک ٹوک نہیں ۔استاد ہیں تو دوست ۔امتحانات کے نمبر ان کے ہاتھ میں چاہیں تو ڈوبی ترا دیں چاہیں تو تیرتی ڈبو دیں ،یونیورسٹیز میں پایا جانے والا گھمبیر مسئلہ طالبات اور میل اساتذہ کے تعلقات ۔تقریبا ہر یونیورسٹی میں ایسے استاد موجود ہیں جو طالبات کو سیشن مارکس کی مد میں غلط تعلق پہ بلیک میل کرتے ہیں اور فیل کر دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
اگر تو طالبہ ان کی بات مان لے تو نالائق سے نالائق سٹوڈنٹ کے بھی فل سیشنل مارکس ہوتے ہیں انکار کی صورت میں لائق طالب ِ علم بھی فیل کر دی جاتی ہے اور یہ فیورٹ ازم ان طالبات کی زندگی سے کھیل جاتا ہے جو محنتی اور با کردار ہیں اور سب سے تکلیف دہ بات کہ اگر وہ مینجمنٹ سے شکایت کریں تو بھی ان کی شنوائی نہیں ہوتی سو ان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ۔یا اپنے مستقبل کا دائو پہ لگا دیں یا اپنے کردار کو۔ایک یونیورسٹی کی بچی نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ جب میں اس بات کا شکار ہوئی تو انکار پہ مجھے مسلسل تین بار فیل کیا گیا جب کہ میرے پیپرز بہت اچھے ہوتے تھے ۔میری کوئی شنوائی نہ ہوئی سو مجبورا مجھے اس غلاظت میں اترنا پڑا اورتب جا کر میں فارغ التحصیل کہلائی۔
مقام افسوس کہ کسی نے آج تک اس مسئلے کی نشان دہی نہیں کی ۔یہ سب لکھنے کا مقصد اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کو احساس دلانا بھی ہے جو اس کیٹگری میں آتے ہیں اس کے علاوہ انتظامیہ کی توجہ بھی درکار ہے کہ ان والدین کی عزت کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری آپ کی ہے کیونکہ والدین آپ اور آپ کے ادارے پہ بھروسا کرتے ہیں ۔سو آپ اپنے سٹاف پہ گہری نظر رکھیں اور اگر کسی کو اس قسم کی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث پائیں تو اسے نکال باہر کریں کیونکہ وہ استاد کہلانے کے لائق نہیں وہ رہنما نہیں رہزن ہے۔
تحریر : عفت بھٹی