یوں توآپ نے اکثر ماڈلز کونت نئے ملبوسات پہننے مخصوص انداز میں ریمپ پر واک کرتے دیکھا ہوگا لیکن فیشن کی دنیا میں ان دنوں جس ماڈل کے چرچے ہیں وہ ایک ایسی امریکی ماڈل ہیں جوحجاب لیتی ہیں اور یہی حجاب ان کی منفرد پہچان بن گیا ہے۔
منی سوٹا سے تعلق رکھنے والی صومالی نژاد 19 سالی حلیمہ عدن نے رفیوجی کیمپ سے ریمپ تک کا سفر اتار چڑھاؤ کے ساتھ طے کیا۔ کینیا میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ ’کاکوما‘ میں پیدا ہونے والی حلیمہ عدن سات سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ امریکا آئیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ شوق بھی پروان چڑھتا رہا اورایک دن حلیمہ نے مس منی سوٹا یو ایس اے کے مقابلے کی ایگزیکٹو کو ڈائریکٹر ڈینسی ویلیس کو فون کر ڈالا۔
ڈینسی ویلیس نے فرانسیسی خبرایجنسی اے ایف پی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حلیمہ نے مس منی سوٹا کے مقابلے میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن یہ بھی بتا دیا کہ وہ حجاب لیتی ہیں۔ حلیمہ نےاپنی جو تصویر بھیجی اس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ منتظمین نے حلیمہ کو مقابلے میں شرکت کی اجازت دے دی۔ حلیمہ عدن حجاب اور برکنی کے ساتھ شریک ہونے والی مس منی سوٹا مقابلے کی تاریخ کی پہلی ماڈل بن گئیں۔
مس منی سوٹا مقابلے میں حجاب پہنی حلیمہ ہیڈلائنز پرچھا گئیں اورایک معروف کمپنی نے انہیں پہلی باحجاب ماڈل کے طور پر سائن بھی کرلیا۔ نوجوانوں کے لئے ملبوسات تیار کرنے والی کمپنی امریکن ایگل آؤٹ فٹرز نے ڈینم حجاب بنانے شروع کردئیے ہیں اور اپنی پروڈکٹ کی ماڈلنگ کے لئے حلیمہ کا انتخاب کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام حجاب آن لائن ایک ہفتے میں فروخت ہوگئے۔ جولائی کے شمارے میں اے لور میگزین نے حلیمہ عدن کا سرورق شائع کیا جس میں انہیں ایک عام امریکی نوجوان لڑکی کہا گیا۔ میگزین کی ایڈیٹرانچیف میشیل لی کے بقول حلیمہ بہت زبردست اور متاثرکن طریقے سے امریکیوں کی نمائندگی کررہی ہیں۔
حلیمہ عدن فیشن ویک میں حصہ لینے نیویارک پہنچیں تو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ہر روز حجاب پہنتی ہوں۔ میں جو چاہتی ہوں وہ کررہی ہوں میرے خیال میں لوگ میرے خلاف نہیں۔ کاکوما کے مہاجرکیمپ میں گزارے وقت کو پرجوش انداز سے یاد کرتے ہوئے حلیمہ نے کہا کہ کیمپ میں افریقہ کے مختلف علاقوں سے آئے پناہ گرین رہتے تھے۔ سب ایک دوسرے سے مختلف لیکن ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔
حلیمہ جوایک اچھی طالبہ بھی ہیں مستقبل میں ماڈلنگ انڈسٹری میں تبدیلی اورتنوع کی علامت بننا چاہتی ہیں۔ حلیمہ کاکوما کے مہاجر کیمپ جا کر مہاجر بچوں کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ حجاب جسے اسلامی تقافث کی نشانی سمجھا جاتا ہے تیزی سے فیشن کمپنیوں، ایڈورٹائزنگ ایجنسیز اورمیڈیا کی توجہ حاصل کررہا ہے اوریہ کمپنیاں حجاب کے روایتی حسن کوجدت کے ساتھ پیش کررہی ہیں۔