نارتھ کیرولینا (ویب ڈیسک) امریکہ میں ایک خاتون ایسی ہیں جو کم مدت کی یادداشت کی شکار ہیں اور رات کو سوتے ہی ان کی دن بھر کی یادداشت محو ہوجاتی ہے۔ اگلے دن وہ بیدار ہوکر یہ سمجھتی ہیں کہ آج بھی اکتوبر 2017 ہے۔نارتھ کیرولائنا، امریکہ کی کیٹلِن لِٹل ڈیڑھ سال قبل کھیل کے دوران سر پر چوٹ لگنے کے بعد ایک نادر کیفیت میں گرفتار ہیں جس کے بعد وہ ایک روز کی یادداشت کی کیفیت میں شکار ہیں۔اگرچہ ماضی پر اس کیفیت پر بہت کچھ لکھا اور پڑھا گیا ہے لیکن پہلے اسے ’گولڈبرگ سنڈروم‘ نامی ایک فرضی بیمار کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹروں نے طبی طور پر اسے ’اینٹروگریڈ ایمنیسیا‘ کا نام دیا ہے۔کوئی 17 ماہ پہلے 12 اکتوبر 2017 کو اپنے کالج میں کھیل کے دوران کیٹلن کا سر ایک اور ساتھی لڑکی کے سر سے ٹکرایا تھا جس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئی تھیں۔ دماغی معالجین نے چوٹ کو شدید قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بتدریج نارمل ہوجائیں گی مگر ایسا نہ ہوا اور اب یہ حال ہے کہ صبح اس کے والدین اسے جگا کر کہتے ہیں کہ دو سال قبل اسے حادثہ پیش آیا تھا اوراب یہ حال ہے کہ وہ روزانہ نئی یادداشت کو اپنے ذہن میں بٹھاتی ہیں لیکن رات کو سوتے ہوئے وہ بھی محو ہوجاتی ہیں۔کیٹلن کے والد نے بتایا کہ مجھے روزانہ یہ خوف رہتا ہے کہ وہ میری بات کو جھوٹ قرار نہ دیدے۔ لیکن یہ میرا کام ہے کہ روزانہ صبح اسے حقیقت سے آگاہ رکھوں۔جب کیٹلن اپنے والد سے یہ پوچھتی ہیں کہ ایسا کیوں ہوا تو وہ اس کے بستر کے پاس رکھا جرنل دکھاتے ہیں جس پر واقعے کی تمام تفصیل تحریر کی گئی ہے اور اسے پڑھنے میں صرف 15 سے 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس کی خصوصی استانی کا بیان ہے کہ وہ ہرصبح کیٹلن سے اس طرح ملتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔کیٹلن کے والد اسے کئی ڈاکٹروں کے پاس لے کر گئے ہیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ہے ۔ فی الحال اس کے علاج پر روزانہ 1000 ڈالر خرچ ہورہے ہیں جس کے اخراجات والدین کے بس سے باہر ہیں اور اب انہوں نے گو فنڈ می کے ذریعے انٹرنیٹ سے چندہ لینا شروع کردیا ہے۔یاد رہے کہ خود کلامی ذہانت اور یاداشت کو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ یہ ایک فائدہ مند عادت ہے جو دماغ کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔خود کلامی کرنے والے افراد کو اکثر غائب دماغ یا کسی ذہنی پیچیدگی کا شکار سمجھا جاتا ہے تاہم ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ۔ نفسیات سے متعلق شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق خود کلامی ذہانت کی نشانی ہے . یہ تحقیق ایسے کئی مفکرین اور سائنسدانوں کی نشاندہی کرتی ہے جو خود کلامی کیا کرتے تھے ۔ معروف سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن نئی تحقیق و دریافت کرتے وقت اکثر جملوں کو باآواز بلند دہرایا کرتے تھے۔آپ خود بھی سے آزما کر دیکھ سکتے ہیں اگر آپ دن بھر کے کاموں کو ایک بار باآواز بلند دوہرا لیں تو آپ کے دماغ میں ان کاموں کی ایک لسٹ بن جاتی ہے پھر آپ کچھ بھولے بغیر اپنے تمام امور آسانی سے نمٹا لیتے ہیں اسی طرح کسی مارکیٹ یا اسٹور میں موجود وہ اشیاء جنہیں دیکھ کر آپ خاموشی سے گزر جاتے ہیں ذہن سے محو ہو جاتی ہیں جب کہ وہ اشیاء جن کے نام آپ باآواز بلند پکار لیتے ہیں۔