تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
اصلی نام شیر محمد خان تھا، لیکن ابن انشاء کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ 15 جون 1927 ء کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میںراجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام منشی خان تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں کے سکول میں، مڈل نزدیکی گائوں کے سکول سے اور 1941ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ،میٹرک میں اول پوزیشن حاصل کی۔
صحافت ،علم و ادب سے دلچسپی تھی اس وقت ” نوائے وقت ” ہفت روزہ تھا ،حمید نظامی صاحب سے ابن انشا ء کی خط و کتابت تھی، انہوں نے ایک خط میں مجید نظامی صاحب ( مرحوم) سے لاہور آ کر “نوائے وقت” میں ملازمت اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حمید نظامی کے مشورے پر ابنِ اِنشاء لاہور آ گئے اور اسلامیہ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا، ان کی رہائش کا بندوبست جناب حمید نظامی نے کیا مگر تین مہینے کے مختصر قیام کے بعد ابن انشاء اپنی طبیعت کے مطابق اور کچھ دیگر وجوہات کے سبب تعلیم ادھوری چھوڑ کر لدھیانہ چلے گئے ۔وہاں بھی بھنورے نے کہاں رہنا تھا، لدھیانہ سے انبالہ چلے گئے، وہاں ملٹری اوکاونٹس کے دفتر میں ملازمت اختیار کرلی ۔لیکن جلد ہی یہ ملازمت بھی چھوڑ دی اور دلی چلے گئے ۔ اس دوران میں آپ نے ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد پرائیویٹ طور پر بی اے کا امتحان پاس کر لیا تھا۔
آپ ذہین تھے ،تھوڑے عرصے بعد انہیں اسمبلی ہاوس میں مترجم کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ بعد از اں آل انڈیا ریڈیو کے نیوز سیکشن میں خبروں کے انگریزی بلیٹن کے اردو ترجمے پر مامور ہوئے اور قیام پاکستان تک وہ آل انڈیا ریڈیو ہی سے وابستہ رہے ۔آپ کی پہلی شادی 1941ء میں لدھیانہ میں عزیزہ بی بی سے ہوئی، عزیزہ بی بی سے ابنِ اِنشاء کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئی، بعد از اں گھریلو ناچاکی کے سبب دونوں کی طبیعت میں فرق کے سبب عزیزہ بی بی اور ابنِ انشاء میں علیحدگی ہو گئی، مگر طلاق نہ ہوئی، لہٰذا عزیزہ بی بی نے باقی تمام عمر ان کی بیوی کی حیثیت ہی سے زندگی بسر کی لیکن ان سے الگ رہیں۔
جب پاکستان بنا تو ابن انشاء اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آ گئے اور لاہور میں رہائش اختیار کر لی، آپ انڈیا میں ریڈیو سے منسلک رہے تھے، اس لیے بھاگ دوڑ کر کے 1949ء میں وہ ریڈیو پاکستان کراچی کے نیوز سیکشن سے بطور مترجم منسلک ہوئے ۔کام کے سلسلے میں کراچی جانا ہوا، اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کا خیال آیا تو انہوں نے اردو کالج کراچی میں 1951ء میں ایم اے اردو کی شام کی جماعتوں میں داخلہ لے لیا اور 1953ء میں ایم اے کا امتحان کیا پہلی پوزیشن حاصل کی۔
ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے ڈاکٹریٹ کیلئے تحقیقی کام کرنے کا سوچا بھاگ دوڑ کر کے مارچ 1954ء میں ان کو بعنوان ( اردو نظام کا تاریخی و تنقیدی جائزہ (آغاز تا حال) کا مقالمہ ملا مگر وہ اپنے اس مقالے کو مکمل نہ کر سکے کچھ عرصہ کراچی میں گزارنے کے بعد آپ لاہور تشریف لے آئے۔ دور جدید کے مسائل سے بھی ابن انشاء آگاہ تھے ،اس کے لیے کالم نگاری کا راستہ اختیار کیا ۔ وہ مختلف اخباروں کے لیے بڑی پابندی سے کالم لکھا کرتے تھے اور اپنی بے باک رائے پیش کیا کرتے تھے۔کالم نگاری آخری عمر تک جاری رہی ۔انہوں نے 1960ء میں روزنامہ ”امروز” کراچی میں درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ 1965ء میں روزنامہ ”انجام” کراچی اور 1966ء میںروزنامہ جنگ سے وابستگی اختیار کی جو ان کی وفات تک جاری رہی۔
دو شعری مجموعے ، چاند نگر اور اس بستی کے کوچے میں 1976ء شائع ہوچکے ہیں۔ 1960ء میں چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ (چینی نظمیں) شائع ہوا۔ ۔ابن انشا ء 1962 ء میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ اس کے علاوہ ٹوکیو بک ڈویپلمنٹ پروگریم کے وائس چیرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگریم ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن بھی مقرر ہوئے ۔ 1969ء میں آپ نے دوسری شادی کی دوسری بیگم کا نام شکیلہ بیگم تھا۔ دوسری بیوی سے آپ کے دو بیٹے سعدی اور رومی پیدا ہوئے ۔کسی حد تک یہ پسند کی شادی تھی۔ ان کی شاعری میں جادو ہے۔ان کی بات ہی الگ ہے ۔کیا کمال کا شاعر تھا اور کیا کمال کی شاعری ہے۔چند شعر دیکھیں۔
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے ، اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو
انشاء جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو اْن پیاروں کا
کیا جھگڑا سود خسارے کاا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
جب دیکھ لیاہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اِس شہر سے دور ۔ اِک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اس اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
انشا ء جی اٹھو اب کوچ کرو نظم کہنے کے ایک ماہ بعد ابن انشاء کی وفات ہوئی ۔اردو ادب کا یہ بے حد مقبول و اہم شاعر و ادیب ،مزاح نگار، جس نے اپنی زندگی کے زیادہ تر ایام حالانکہ اپنے شہر کراچی ، لاہور یعنی پاکستان میں گزارے ، مگر جب اجل کا وقت قریب آیا تو وہ اپنے وطن سے سات سمندر پار انگلستان میں مقیم تھے ۔وہیںانہوں نے 11 جنوری 1978ء کو لندن میں وفات پائی اور پاپوش نگر قبرستان،کراچی میں آسودہ خاک ہیں۔یہ عظیم شاعر و ادیب افسانہ نگار ابن انشاء جسمانی طور پر ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ اس دنیا سے رخصت ہوئے 38 برس بیت گئے ہیںمگر وہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ آج بھی زندہ ہے۔
ان کی چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں ۔آوارہ گرد کی ڈائری ۔دنیا گول ہے ۔ابن بطوطہ کے تعاقب میں۔چلتے ہو تو چین کو چلئے ۔نگری نگری پھرا مسافر۔آپ سے کیا پردہ ۔خمار گندم۔اردو کی آخری کتاب۔خط انشا جی کے۔اس کے علاوہ آپ نے متعدد تراجم بھی کیے (اندھا کنواں اور دیگر پر اسرار کہانیاں۔مجبور۔ لاکھوں کا شہر۔ شہر پناہ چینی نظمیں ، سانس کی پھانس، وہ بیضوی تصویر، ، عطر فروش دوشیزہ کے قتل کا معمہ، قصہ ایک کنوارے کا۔کارنامے ناب تیس مار خان کے ۔ شلجم کیسے اکھڑا بچوں کیلئے ایک پرانی روسی کہانی کا ترجمہ۔ یہ بچہ کس کا بچہ ہے ؟ ۔قصہ دم کٹے چوہے کا ۔ میں دوڑتا ہی دوڑتا”اختر کی یاد میں” اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سندھی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کرنے کا اعزار آپ نے حاصل کیا۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال