تحریر: اقبال کھوکھر
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”آپ آزاد ہیں، آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں، مسجدوں، مندروں یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے آزاد ہیں، آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرقہ کیا ہے؟ ذات کیا ہے؟ قوم کیا ہے ؟اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ۔ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں”۔
سچائی سے بیان کیجئے کہ اقلیتوں کو ہی کیا یہاں عام پاکستانی کو بھی برابر کے حقوق میسر نہیں۔ ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ پاکستان اقلیتوں کے لئے غیر محفوظ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے اورخدانخواستہ شاید آنے والے چند سالوں میں ساتویں سے بھی اوپر چلاجائے۔ پاکستان میں ہر دور میں آنے والا حاکم یہی کہتا رہا ہے کہ اقلیتوں کو اْن کے تمام حقوق میسر ہیں۔ لیکن پاکستان کاآئین اس قسم کے جھوٹے بیانات کی تردید کرتا ہے۔جس ملک میں اقلیتوں کے آباء واجداد کا خون شامل ہے اسی ملک میں اقلیتی اعلیٰ ملکی عہدوں کے لئے نااہل ہیں۔
دوسری طرف پاکستانی غریب ڈرائیور کا سپوت محمدصادق خان مسلم ہونے کے باوجود لندن جیسے شہر کا میئر بن جاتا ہے۔ مگر پاکستانی معاشرے میں اقلیتوں کو ان کو اپنے نمائندے تک خود منتخب کرنے کے بنیادی شہری حق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔کسی جوزف،کسی مارٹن کو لاہور،کراچی،پشاورکا ممبر تک منتخب کرنے کا توسوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔کیونکہ یہ برطانوی معاشرہ نہیں بلکہ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” ہے۔ برطانیہ کی جمہوریت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک جمہوریت ہے جس میں تمام مذاہب کے پیروکار مل کر رہ سکتے ہیں۔ اس جمہوریت میںیہ نہیں دیکھاجاتا کہ عوامی نمائندے کا حسب نسب کیا ہے؟ یہ ہی وجہ ہے کہ صادق خان کے لندن کے میئر بننے میںاس کے مذہب ،باپ کے پیشے اورنہ ہی پاکستانی نژاد ہونے نے کوئی رکاوٹ ڈالی ۔ یہ ہی اصل جمہوریت ہے جس کاپاکستان میں ابھی تک کوئی تصور نہیں۔
قیام پاکستان سے تاحال اشرافیہ،امراء اور طاقتور طبقہ غریب،مظلوم ومجبور ومحکوم طبقے کا استحصال کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور بدقسمتی سے ملکی قوانین اور معاشرتی اونچ نیچ بھی دولت ووسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو تحفظ دیتے ہیں جس سے بااختیار طبقہ جائزوناجائز ذرائع سے دولت سمیٹنے کی ہوس میں گھروں کے چراغ بجھا دیتے ہیں اور پھر یہی دولت جب بیرون ملک پانامہ لیکس کی صورت میں سامنے آتی ہے تو اسے بچانے کے لئے قومی مفاہمتی پالیسیاں اور سیاسی ضرورتوں کا نام دیا جاتا ہے۔
جس ملک میں عوام کی بیشتر آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی ہے نہ ہی انہیں روٹی میسر ہے نہ پینے کا صاف پانی ہے۔انہیں پہننے کو لباس میسر ہے نہ ہی سرپر چھت۔ 20 کروڑ آبادی والے ملک میں 6 کروڑ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ 8کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار جبکہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے بھی محروم ہیں۔ ہر دس میں سے ایک پاکستانی بے روزگار اور معاشی مشکلات کاشکار ہو،جہاں مذہب کی بنیاد پر ملک کی محب وطن اقلیتوں کوبنیادی حقوق شہریت سے بھی محروم رکھاجائے وہاں جمہوریت کی باتیں عجیب لگتی ہیں۔اس طرح کی بے فیض جمہوریت نے معتدد وزرائے اعظم تک کو مقتل گاہ تک پہنچایا۔ایک عام آدمی کو قطعی ایسی جمہوریت کی ضرورت نہیں جس میں اس کو اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے معاشرے کا ایندھن بننا پڑے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے نوجوانوں میں امیر بننے کے چکر میں غلط راستوں کا انتخاب کرناکوئی بڑی بات نہیں۔
محرومیوں،مایوسیوں اورناانصافیوں کے اندھیرے خودکشی کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔پاکستان وہ ریاست ہے جہاںآزادی کے 69برس بعد بھی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث لوگ پینے کے صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولیات، انصاف، بجلی اور سڑکوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ لاقانونیت، بے ایمانی، نااہلی اور بدانتظامی عروج پر ہے کوئی کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوتا۔دو فیصد امراء طبقہ تو دنیا کی ہر نعمت سے لطف اندوز باقی پاکستان صرف دال روٹی کی چکی میں پسے پریشان ہیں۔ اسی وجہ سے معاشرے سے ایثار، ہمدردی اور احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ معاشرے میں روادری اور اخوت کو فروغ دیا جائے۔ہمیں اپنے رویوں سے منفی تاثر ختم کرکے مثبت سوچ کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔سول سوسائٹی اس حوالے سے بہتر کردارادا کرسکتی ہے۔
تحریر: اقبال کھوکھر