تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ہماری طاقتور آرام دہ جیپ برق رفتاری سے مانچسٹر سے ہیلی فیکس (برطانیہ) کی طرف دوڑ رہی تھی۔ میرا میزبان نور احمدر انجھا دو دن سے میرے تجسس کو ابھار رہا تھا کہ آپ نے سارا برطانیہ دیکھ لیا ہے لیکن میں آپ کو جس وادی میں لے کر جائوں گا آپ نے ویسی خوبصورت وادی اور پہاڑ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں گے اور آج وہ ہمیں ہیلی فیکس کی طرف لے کر جا رہا تھا ساتھ ساتھ وہ ہیلی فیکس کے قدرتی مناظر اور خوبصورتی پر روشنی ڈالتا جا رہا تھا کہ یہ تو فروری کا سرد ترین مہینہ ہے گرمیوں میں اگر کبھی ادھر آئیں تو لگتا ہے وادی کے قدرتی حسن اور نظاروں نے پورے برطانیہ کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے میرے میزبان کو میری اس کمزوری کا بخوبی پتہ تھا کہ میں خدا اور اس کے قدرتی مناظر کا شروع دن سے ہی دلدادہ ہوں اس لیے وہ میزبانی کا اعلیٰ ترین حق ادا کرتے ہوئے آج ہمیں ہیلی فیکس کی طرف لے جا رہا تھا میں اور میرا دوست نصیر احمد اپنے میزبان کی پرجوش باتوں سے بہت زیادہ متجسس ہو چکے تھے کہ آخر ہیلی فیکس کے نیم پہاڑی علاقے میں کیا خاص بات ہے جو نور احمد دو دن سے اس کی تعریف کئے جا رہا ہے۔
آنے سے ایک دن پہلے جب میں نے فون پر برطانیہ میں مقیم دوستوں کو بتایا کہ کل ہم ہیلی فیکس جائیں گے تو سبھی نے ہی وادی کے حسن کی تعریف کی اور کہا کہ آپ واقعی قدرتی حسن اور مناظر سے لطف اندوز ہوں گے۔ گاڑی کے اندر کا ماحول بہت آرام دہ تھا جبکہ باہر بہت سردی تھی ہماری جیپ برفیلی منجمد ہوائوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی اور پھر نیم پہاڑی علاقہ شروع ہو گیا۔ ہم پوری طرح تیار تھے کہ آج ہم اس وزٹ کے سب سے خوبصورت علاقے کا نظارہ کریں گے اور پھر اوپر چڑھتے ہوئے جب گاڑی نے اچانک موڑ کاٹا تو واقعی بہت ہی خوبصورت اور دلفریب منظر ہمارے سامنے تھا۔ میں اتنے خوبصورت سرسبز اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے منظر کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھا’ میں پرجوش آواز میں بولا گاڑی روکو لیکن میرے میزبان نے میری حالت کو ENJOY کرتے ہوئے کہا نہیں بھائی اصل خوبصورتی تو ابھی آگے ہے اور پھر وادی کے سحر میں کھو ساگیا اور اسی دوران گاڑی نے ایک اور موڑ کاٹا تو ہمارے سامنے پہلے سے بھی خوبصورت منظر تھا منظر کی خوبصورتی نے میرے اوپر وجد کی سی حالت طاری کر دی اور میں تقریباً چیخ پڑا کہ گاڑی روکو ‘میں اتر کر اس منظر کو قطرہ قطرہ انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن میرے میزبان نے اب بھی رکنے سے انکار کیا اور شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا بھائی جان اصل بیوٹی تو آگے ہے ۔میں بار بار گاڑی کو روکنے کا کہہ رہا تھا لیکن وہ گاڑی کو اور اوپر بلندی کی طرف دوڑائے جا رہا تھا اور پھر جب ہم ایک بڑا موڑ کاٹ کر پہاڑ کی دوسری طرف پہنچے تو میری آنکھوں کے سامنے میلوں دور تک پھیلی نیم پہاڑیوں کی وادی دعوت نظارہ دے رہی تھی اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھا اور حکمیہ انداز میں تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ خدا کے لیے اب گاڑی روک دو میرے میزبان نے سڑک کنارے گاڑی روک دی اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی وہ فاتحانہ اور مغرور شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر داد طلب تاثرات واضح نظر آ رہے تھے۔ میں اس کو نظرانداز کرتے ہوئے دروازہ کھول کر نیچے کود گیا۔ وادی کے غیر معمولی دلکش ‘ مسحور کن اور دلفریب حسن نے میرے اوپر حالت وجد طاری کر دی تھی۔
میں عالم مدہوشی میں باہر کی منجمد سردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بادلوں سے بھرے آسمان کے نیچے کھڑا تھا ہلکی ہلکی بارش نے سردی کی شدت میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔ سرسبز پہاڑی سلسلے بچپن سے میری کمزوری رہے ہیں۔ اپنی کمزوری کے تحت میں نے بارہ سال ملکہ کوہسار مری میں گزارے۔ کشمیر گلگت اور تقریباً پاکستان کے تمام پہاڑی علاقوں کو میں بار بار دیکھ چکا ہوں۔ میں شروع سے ہی خالق ارض و سما کے دلکش نظاروں کا دیوانہ رہا ہوں۔ میرا دل ہمیشہ سے کرتا ہے کہ میں خدا کی بنائی ہوئی اس خوبصورت ترین زمین کو مختلف زاویوں سے دیکھوں تاکہ عشق الہٰی میں اور شدت پیدا ہو سکے’ دنیا میں تقریباً دس ہزار سے زیادہ دلکش ایسے مناظر ہیں کہ ہر نظارہ آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ کائنات کا چپہ چپہ ایسے دلکش مسحور کن مناظر سے بھرا پڑا ہے۔ کائنات کا حسن ترتیب’ تنوع اور سحر انگیز مناظر اپنی خوبصورتی اور دلکشی سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ کائنات کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت بڑے خالق نے اس کو یہ حسن بخشا ہے۔ کائنات ایسے ایسے مناظر سے مالا مال ہے کہ ہر منظر آپ کو اپنے سحر میں لے کر خالق کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے میرے سامنے بھی ایسا ہی دل کش منظر تھا۔
دور تک خوبصورت وادی اس طرح کہ ریشمی مخملی گھاس کی خوبصورت قاشیں کاٹ کر بہت خوبصورت طریقے سے سجا دی گئی ہوں۔ وادی میں مختلف جگہوں پر پرانی برف کی ڈھیریاں اس کے حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں درمیان سے ندی یا دریا کا گزرنا ماحول کو دو آتشہ کر رہا تھا۔ وادی کا اتار چڑھائو دلکش سحر انگیز لہروں کے روپ میں ڈھلا ہوا تھا لگ رہا تھا قدرت کے ہاتھوں نے بہت بڑا پیالہ اس میں خوبصورتی بھر کر اس زمین پر رکھ دیا ہو’ درمیان میں ندی نالے اور جھرنے اور بھی سحر پیدا کر رہے تھے اور اچانک میری نظر بھیڑوں پر پڑی جو دنیا و مافیہا سے بے پروا موسم پوری رعنائی کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ حیرت اس بات کی تھی کہ فرنگی ملحد بھی ایسے مناظر کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اتنی دلکشی اور ترتیب کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کو لازوال حسن بخشنے والا ایک خدا ہے۔ جو اپنی کن فیکون کی قوت کے تحت ایسے سحر انگیز مناظر انسانوں کے لیے پیدا کرتا ہے تاکہ انسان غور وفکر کے بعد خالق کے ہونے کا یقین کر لے۔
میں وادی کے مسحور کن حسن کا ایسا اسیر ہو کر رہ گیا تھا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے کچھ وقت کیلئے بالکل نہ چھیڑا جائے اور پھر میں نے پیدل چلنا شروع کر دیا چلتے چلتے ایک جگہ بیٹھ گیا میںاس کے حسن کو قطرہ قطرہ انجوائے کر رہا تھا۔ میری آنکھیں اور دماغ وادی کے لازوال اور دلکش ترین حسن سے لطف اندوز اور روشن ہو رہے تھے کیونکہ میں بھی عشق الہٰی کا مسافر ہوں۔ اس لیے خدائے بزرگ و برتر کی بنائی ہوئی ہر خوبصورت چیز سے بھی پیار ہوجاتا ہے۔ وادی کا چپہ چپہ خدا کے ہونے کا یقین دلا رہا تھا چاروں طرف اللہ کے ہونے کا پیغام گونج رہا تھا ‘میں مست اور مدہوش تھان پتہ نہیں کتنی دیر میں مبہوت ہو کر مناظر کو بار بار دیکھتا رہا’ خدا کی فیاضی کا شکر گزار بھی کہ اس مالک بے نیاز نے انسان کو کیسی کیسی لازوال نعمتوں سے نوازا ہے اور پھر تیز بارش شروع ہو گئی تو مجبوراً دوڑ کر گاڑی میں جانا پڑا۔ گاڑی کے گرم اور آرام دہ ماحول میں آیا تو میزبان بولا بھائی جان برمنگھم سے تین افراد ہماری تلاش میں ہی ادھر آئے ہوئے ہیں جو آگے ترکش ریسٹورنٹ میں ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ بہت مجبور اور پریشان ہیں اس لیے میں نے انہیں کہا کہ وہ ترکش ہوٹل میں ہمارا انتظار کریں ۔ اب ہماری جیپ ترکش ریسٹورنٹ کی طرف بھاگ رہی تھی جہاں برطانیہ کے تین مظلوم اور بے بس باپ شدت سے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956