اسلام آباد(ایس ایم حسنین) عالمی وبا کورونا کے خلاف موثر اقدامت کے بعد عالمی ادارہ صحت کے ماہرین رواں ہفتے چین پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ کورونا وائرس کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب کے بارے میں تحقیقات کریں گے۔ اس بارے میں چھان بین کا عمل ایک عرصے سے متوقع تھا۔ فی الحال واضح نہیں کہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین چین کے مرکزی شہر ووہان بھی جائیں گے یا نہیں؟ یاد رہے کہ یہی وہ چینی شہر ہے، جہاں 2019 ء کے اواخر میں سب سے پہلے مہلک کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔عالمی ادارہ صحت اور چینی حکومت کے مابین اس دورے کے بارے میں ایک طویل عرصے سے مذاکرات جاری تھے۔غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق چینی حکام نے پیر کو اس امر کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کے تحقیقاتی کمیشن کے ماہرین آئندہ جمعرات کو اپنے چینی ہم منصبوں سے ملاقات کریں گے۔ بیجنگ حکومت کی طرف سے تاہم اس مختصر بیان کے علاوہ اس بارے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس کے بیانات کے بعد چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ چین کے دروازے ڈبلیو ایچ او کی تحقیقاتی ٹیم کے لیے کُھلے تھے تاہم وہ ” اس سلسلے میں متعلقہ ضروری انتظامات، ان کے طریقہ کار اور ٹھوس منصوبے پر کام کر رہی تھی۔‘‘ چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ہوا چون ژنگ کا کہنا تھا،”ہمارے ماہرین انتہائی بوجھ کے باوجود اس وباء کے خلاف دل کی گہرائیوں سے لڑنے اور اس پر قابو پانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘ دریں اثناء اقوام متحدہ کے ایک ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے نیویارک میں اس عالمی ادارے کے ہیڈکوارٹرز میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا،”یہ امر غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ میں ڈبلیو ایچ او قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کورونا وائرس کی ابتدا اور اس کی جڑوں تک پہنچنے کی بھی کوشش میں غیرمعمولی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے اگلے وائرس کے روک تھام میں مدد ملے گی۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے گزشتہ ہفتے اس دورے میں مسلسل تاخیر پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کی اس ٹیم میں شامل مختلف ممالک کے ماہرین اپنے اپنے ممالک سے چین کے دورے کے لیے نکل چُکے ہیں اور ایسا عالمی ادارے اور بیجنگ حکومت کے مابین طے شدہ ایک پلان اور انتظام کے تحت کیا گیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی تفتیش کے مطابق چینی حکومت نے اپنے ہاں وائرس کے پھیلاؤ کی ابتدا سے ہی اس سلسلے میں ہر قسم کی خبروں اور تحقیق پر سخت کنٹرول کر رکھا ہے۔ دوسری جانب چین کا سرکاری میڈیا اس قسم کے مفروضے پھیلاتا رہا ہے کہ کورونا وائرس کی ابتدا کہیں اور سے بھی ہو سکتی ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی چھان بین کے مطابق بیجنگ حکومت ایک طرف ان مقامی محققین کو لاکھوں ڈالر فراہم کر رہی ہے، جو کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں تحقیق پر مامور ہیں۔ دوسری جانب ان کی تحقیق کے نتائج کو سخت کنٹرول بھی کیا جا رہا ہے اور کسی بھی تحقیق کے نتائج کو اشاعت سے پہلے چینی کابینہ کے زیر انتظام ایک ٹاسک فورس سے منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ یہ ٹاسک فورس براہ راست چینی صدر شی جن پنگ کے زیر نگرانی کام کرتی اور ان کے احکامات بجا لاتی ہے۔
‘رازداری کی ثقافت‘
خیال کیا جا رہا ہے کہ چین کی رازداری کی ثقافت کے سبب کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق انتباہی پیغامات میں تاخیر ہوئی اور اسی سبب کورونا وائرس کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کے ساتھ معلومات کے تبادلے میں بھی سخت رکاوٹ ڈالی گئی۔
اس سلسلے میں آسٹریلیا اور دیگر ممالک نے کورونا وائرس کی ابتدا اور اس کے پھیلنے کی اصل جگہ کے بارے میں تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا، جو بیجنگ حکومت کی ناراضی کا سبب بنا اور اس پر چین کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا۔