تحریر : شہزاد سلیم عباسی
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر چالوں، تدبیروں، مکروں اور امتحانوں کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ ایک جگہ پر ارشاد ربانی ہے ” کہ وہ ایک تدبیر کر رہے ہیں ، اور میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں، پس کافروں کو تھوڑے دنوں کی مہلت ہے” یہاں تو اللہ تعالیٰ کافروں سے مخاطب ہے اور انہیں قرآن کے انکار پر اپنی حقانیت بتلانے کیساتھ ساتھ مہلت بھی دے رہا ہے۔ چونکہ ہم تو اتنا زیادہ تر قرآن حکیم فرقان حمید سے روشنی یا رہنمائی لینے کی سعی نہیں کرتے بس صرف نماز تک ہی خود کو باندھے رکھتے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ہمارا مطمعِ نظر نہیں ہوتے۔ بہرحال مسلم لیگ (ن )کی چالیں اور تدبیریں تو گارگر ثابت ہو رہی ہیں۔
نوازشریف صاحب نے حکومت سنبھالی تو پاکستان مسائلستان کی سرزمین، اندورنی و بیرونی سازشوں کامرکز، اور عوامی دکھوں کا ایک سمندر لیے ہوئے تھا اسمیں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کی حکومت نے نہ صرف ان تمام امراض کے فوری ٹریٹمنٹ کا اعلان کیا بلکہ مختلف ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز مختص کر کے سڑکوں کے جال بچھائے جو کہ انکی ہمیشہ سے ترجیح اول رہی ہے ۔پچھلی تمام حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی پچھلے دور کے منظور کیے گئے پراجیکٹس پر تختیاں بھی لگوائیں اور بعض منصوبوں پرقدغن بھی ۔اور اپنے لوگوں کواگلے الیکشن کے لیے اپنے بازرؤں کو مضبوط کر کے گراؤنڈپر رہنے کی بھی تاکید کی، تاہم مسلم لیگ (ن) کے زیادہ تر وزراء،مشیران اور خواص وغیرہ تو صرف میڈیا ٹاک شوز، نیوز کانفرنس، پریس کانفرنس اور بیان داغنے تک محدود ہیں ۔ نواز شریف کی ٹیم ہر بار کیطرح اس بار بھی جگاڑکے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش میں ہے اور بیان پر بیان، بحث پر بحث اور تیر پر تیر برسا رہے ہیں حالانکہ میاں نواز شریف کی تو ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ بیان و توضیح ،دال استدلال اور تنقید برائے تنقید کے بجائے افہام و تفہیم اور اصلاح کے ذریعے چیزوں کا حل ڈھونڈا جائے۔نواز شریف اور زرداری کا مثالی تدبرہے کہ نواز شریف اخی اکبر کا کردار بخوبی نبھاتے ہیں اور زرداری جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔
اسکی عظیم مثال میثاقِ مری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جوپہلے دھرنے اور اب پانامہ لیکس کے بھنور میں آصف علی زرداری صاحب کی ہمالیہ سے بھی اونچی دوستی کی شکل میں اظہر من الشمس ہے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو کہ اپنی پارٹی کے واحد اکثریتی باضابطہ لیڈر ہیں جنہیں پارٹی کے تمام لوگوں کی حمایت حاصل ہے انکی پارٹی کے باقی لوگ تو ٹائم پاس ہیں جو جی میں آیا میڈیا کے سامنے بول دیا ۔ عمران خان کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ دھرنے کا سیزن نہیں جسمیں انہوں نے نواز شریف سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ یا تو آپ رہو گا یا میں رہوں گا!آپ استعفیٰ دو اور عوام کی جان چھوڑو!آپکے استعفیٰ کے بغیر میں دھرنا ختم نہیں کرونگا ! اورکبھی گویا ہوئے کہ نواز شریف چار حلقوں کی تحقیقات تک اپنی کرسی چھوڑ دیں لیکن عوام نے جلد جان لیا کہ یہ سب بھڑکوں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔،بالا آخر انہیں اپنی بھڑکوں سے توبہ تائب ہو کر بنی گالہ آنا پڑا۔
اسی طرح پانامہ لیکس میں عمران خان نے مطالبہ کیا فرانزک ماہرین کے بغیر تحقیقات نہیں ہونگی اور اب کہتے ہیں کہ نواز شریف تحقیقات تک حکومتی عہدے سے الگ ہو جائیں ،یہ سب کچھ خان صاحب کی طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں ہے ۔اب تھوڑا میچورہونا پڑے گا کیونکہ پی ٹی آئی کا سیاسی سفر سیاسی بلوغت کا متقاضی ہے ۔مسئلہ پی پی پی ، متحدہ ،جمعیت علماء اسلام (ف) ، جماعت اسلامی ، شیخ رشید یاکسی دوسری پارٹی کا نہیں ہے یہ سب پارٹیاں تو کافی حد تک عوامی ساخت گواں چکی ہیں ۔ پی پی پی بے ساکھیوں پر ہے اور اپنی آخری سانسوں پر ہے اورزرداری کے پیر و مرشد کے مطابق رواں دور پارٹی کیلیے کافی بھاری ہے اسی لیے تو بلاول صاحب کچھ اور زرداری ٹولہ کچھ بیان جاری کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان تو کسی بھی گورنمنٹ کیساتھ جٹ سے فٹ ہو جاتے ہیں اور اپنے مدارس کی طاقت دکھا کر وزارتیں بھی لے اڑتے ہیں۔ متحدہ تو سول و ملٹری قیادت کے نشانے پر ہے۔ جماعت اسلامی والے تو بس بیچارے کبھی ایک کو ٹیک کبھی دوسرے کو ٹیک۔۔ ٹیک ٹیک میں پھولے نہیں سماتے۔
اور شیخ صاحب تو اپنی واحد سیٹ کیساتھ تانگہ پارٹی کے نام سے مشہور ہیں۔خان صاحب آپکو پتہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی ساخت کسی بھی قیمت بچانی ہے ،دھرنے میں بچائی اب پانامہ میں بھی بچائے گی ۔پیپلزپارٹی کے لیے میثاق مری اور نظریہِ ضرورت انتہائی اہمیت کا حامل ہے جوکہ آپ کے لیے نہیں ہے۔
عمران خان نے میڈیا کے سامنے چیخ چیخ کر کہا کہ نواز شریف اسمبلی میں نہیں آتے اور جب آئینگے تو میں ان سے تمام سوالات کے جواب مانگوں گا اور خود پر لگے آف شور الزامات کو بھی کلئیر کرونگا؟ اور جب نواز شریف اسمبلی اجلاس میں تشریف لائے تو واک آؤٹ کر گئے، کیا یہ کسی طرح بھی مدبرانہ فیصلہ تھا؟ اس دن عمران خان کا سید خورشید شاہ کی جانب سے واک آؤ ٹ کا حصہ بننا کیادانشمندانہ فیصلہ تھا ؟ کیا اس سے پی ٹی آئی کے امیج پر منفی اثر نہیں پڑھا؟ خان صاحب کی چالیں اور تدبیریں سب الٹ چل رہی ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ عمران خان کے سیاسی حریف نواز شریف صاحب شطرنج کے ماسٹر ہیں جو کسی شاہطیر اور ماہطیر کو پچھاڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔عمران خان کا نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ بلکل درست نہیں ہے اور نہ ہی اچھی روایت ہے کیونکہ موصوف خود اور انکے ساتھی بھی آف شور میں ملوث ہیں۔
لہذا چور راستے سے آنے کے بجائے جمہوری رویوں کو اپنائیں۔ کیونکہ جب پی ٹی آئی نے پانامہ لیکس، فرانزک، استعفیٰ ،اپوزیشن، ٹی او آر اور پھر اسمبلی اجلاس جیسی قیامت ڈھانے کے بعد اب سید خورشید شاہ کے اشاروں پر چلنا ہے تو پھر وائے ناکامی اور وائے حسرت ہی بادی النظر میں پی ٹی آئی کا مستقبل ہو گا ۔سیاسی و جمہوری مقابلے تو ملک و قوم کا حسن ہیں انہیں جاری وساری رہنا ہی چاہیے تاکہ ملک میں انارکی ، بدنمائی، سازش،بغاوت کے خاتمے کیساتھ خوبصورت جمہوری نظام کا بول بالا ہو۔خان صاحب کو اب اپنی پارٹی کی سمت درست کرنا ہو گی کیونکہ اگر پی ٹی آئی خیبر پی کے ، کے عوام کو اس بار خوش کر پاتی ہے تو ٹھیک وگرنہ پھر سے خان صاحب اپنی تقریباََ 20سالہ جدوجہد پر پانی پھیر دینگے اور پیپلزپارٹی کی سربراہی میں تومتحدہ اپوزیشن کاپلیٹ فارم گفتن نشستن برخاستن کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تحریر : شہزاد سلیم عباسی
0333-31 33 245
shahzadsaleemabbasi@gmail.com