تحریر:مہر بشارت صدیقی
جیسا کہ توقع تھی بھارتی خارجہ سیکریٹری ایس جے شنکر کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی بریک تھرو کا باعث نہیں بنا۔ لیکن سرکاری اور غیر سرکاری مبصرین اعلیٰ ترین بھارتی سفارت کار کی پاکستان آمد ہی کو بڑی خبر قرار دے رہے ہیں۔بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اسلام آباد پہنچنے کے فوراً بعد اپنے پاکستانی ہم منصب اعزاز چوہدری سے مذاکرات کے علاوہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اس دوران کیا کچھ زیر بحث آیا اس بارے میں میڈیا کو زیادہ نہیں بتایا گیا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے ایک مختصر سا بیان تو جاری کیا لیکن صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہیں دیے۔بھارت کی جانب سے پچھلے سال مذاکرات معطل کرنے کے اعلان کے بعد، دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا با ضابطہ رابطہ ہے۔
اس دوران متنازعہ سرحد پر فائرنگ کے تبادلے میں دونوں جانب سے درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔بھارت کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اچانک فیصلے کے بعد پاکستان نے عالمی برادری اور خود بھارت پر واضح کر دیا تھا کہ اب پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔پھر اس دوران ایسا کیا ہوا کہ خود بھارتی وزیراعظم جنہوں نے پچھلے سال یکطرفہ طور پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، پاکستانی وزیراعظم کو فون کیا اور سیکریٹری خارجہ کو پاکستان بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
جے شنکر وزیراعظم نوازشریف سے بھی ملے اور انہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا خط پہنچایا۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سے کشمیر سمیت تمام ایشوز پر بات ہوئی، دوطرفہ مسائل پر بات چیت کی گئی۔ فاٹا اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا، سیاچن، سرکریک اور دیگر امور پر بات چیت کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
بھارتی ہم منصب کے سامنے ایل او سی پر کشیدگی کا معاملہ اٹھایا، ملاقات میں سمجھوتہ ایکسپریس کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، ہم نے کہا کہ آج سات آٹھ سال ہو گئے مگر ہمیں سمجھوتہ ایکسپریس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے نریندر مودی کا ایک خط بھی وزیراعظم کو پہنچایا، پاکستان اور بھارت کے درمیان سارک کو مزید فعال بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔ ملاقات میں 2003ء کے سیزفائر معاہدے پر عملدرآمد کیلئے بات ہوئی۔ دونوں ممالک میں عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے پر اتفاق ہوا، انہوں نے کہا ہمسایوں سے پْرامن تعلقات چاہتے ہیں،
پاکستان آئندہ سال سارک کی میزبانی کرے گا، دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہئے، دہشت گردی کا مسئلہ پورے خطے میں ہے، دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے خدشات بتائے، دہشت گردی کے معاملے پر دوطرفہ تعاون ہونا چاہئے، انہوں نے کہا ایل او سی پر سیزفائر کی خلاف ورزی پر تشویش ہے، وزیراعظم کے وژن کے مطابق ہمسایہ ملکوں سے پْرامن تعلقات چاہتے ہیں، بھارت سے کہا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہیں ہونی چاہئے۔ تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کیلئے طریقہ کار وضع کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات کی باضابطہ بحالی کا ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا، دونوں ممالک کو قابل قبول حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
دوطرفہ مسائل حل کرنے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، کشمیری لیڈروں سے ان کا مئوقف جاننے کیلئے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ قبل ازیں بھارت کے خارجہ سیکرٹری سبرامینم جے شنکر نے کہا ان کی پاکستانی ہم منصب سے تعمیری اور خوشگوار بات چیت ہوئی۔ میڈیا کے ساتھ مختصر گفتگو میں وہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے بارے میں سوال کا جواب گول کر گئے اور دیگر سوالات کا بھی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات میں سرحدی کشیدگی کم کرنے پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر ایک دوسرے کے خدشات اور مفادات پر کھل کر بات ہوئی۔ جے شنکر کا کہنا تھا کہ دورہ کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر بات کرنا ہے۔ طرفین نے اختلافات دور کرنے کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
سرحد پر کشیدگی کے خاتمہ اور امن کے قیام پر بات ہوئی۔بھارتی سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی سے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات چاہتا ہے، ہم اپنے تمام مسائل کا حل بات چیت سے نکال سکتے ہیں’ سارک تنظیم ایشیائی ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے
ہم نہ تو کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت دیں گے، دل سے اس بات کا خواہاں ہوںکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ کشمیر سیاچن، سرکریک اور پانی کے مسائل اور اپنے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کے تحفظات کو دور کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا بڑا مقصد بھی یہی تھا تاہم افسوس ہے کہ بعد میں صورتحال مناسب نہ رہی، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو دنیا کے دیگر خطوں میں ہونیوالی ترقی کو دیکھ کر سبق حاصل کرنا چاہیے اور ہمیں بھی اپنے تمام وسائل اپنے عوام پر خرچ کرکے ان کی حالت کو بہتر بنانا چاہئے۔
دونوں ملکوں کو اپنے تعلقات میں نئے دور کا آغاز کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا دونوں ملک اچھے پڑوسیوں جیسے تعاون پر مبنی تعلقات استوار کریں۔ یہ جنوبی ایشیا میں پْرامن پڑوس کے لئے ان کے وڑن سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے توقع ظاہر کی دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریز کے درمیان بات چیت دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لئے مدد گار ثابت ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کو بات چیت کے ذریعے تمام دیرینہ تنازعات کے حل کی جانب پیشرفت کرکے اپنے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنا چاہئے۔ دونوں ممالک کی قیادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک کے عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ ہمیں مل جل کر سوچنا چاہئے۔ دونوں اقوام کو قریب لانے کے جذبہ سے آگے بڑھنا چاہئے۔ ہمارے عوام پرامن زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 2016ء کی سارک سربراہ کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔ وہ سارک رہنمائوں کا خیرمقدم کرنے کے منتظر ہیں۔ وزیراعظم نے زور دیا کہ لائن آف کنٹرول پر امن اور سکون ہونا چاہئے۔ ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر انہیں شدید پریشانی ہوئی ہے، دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور نیٹ ورک ختم کئے جا رہے ہیں۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ نریندر مودی پاکستان مسلم لیگ ن کی پالیسیوں کی تعریف کرتے ہیں۔
بھارت نے گذشتہ برس اگست میں پاکستان سے سیکریٹری سطح کے مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ایس جے شنکر کے اس دور ہ پاکستان کی اطلاع 13 فروری کو بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیرِ اعظم کو ٹیلیفونک بات چیت میں دی تھی۔بھارت میں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں تلخی آئی ہے،اگرچہ وزیراعظم نواز شریف نے بے جی پی کے رہنما نریندر مودی کے وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی تھی لیکن بات پھر آگے نہیں بڑھ سکی۔
گذشتہ برس دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باو نڈری پر جھڑپوں کے متعدد واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تھا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بے سود اور ناکام رہیں گے، خطے میں امن کے لئے آلو پیاز ٹماٹر اور بکرا ڈپلومیسی سے باہر آکر کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ بھارت 1947ء سے عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی کرکے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو دبائے ہوئے ہے مگر بے حس عالمی ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مسلم ممالک کی تنظیموں نے مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کی طرح کشمیر سے بھی کنارہ کشی ہی کر رکھی ہے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ریاستی جبر دبا نہیں سکتا، اس لئے خود بھارت کے لئے مناسب ہوگا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کو استصواب رائے کا موقع دے، تاکہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں جو کہ یقیناً الحاق پاکستان ہی ہوگا۔ حکومت پاکستان کو بھارت کے کشمیریوں پر مظالم کے خلاف سفارتی سطح پر جرائت مندانہ احتجاج کرنا چاہیئے، تاکہ عوام کی صحیح ترجمانی کی جاسکے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کھلے انداز میں کریں۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی