تحریر : سجاد علی شاکر
مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کے متعدد ممالک میں جنگ کا ماحول ہے۔ پاکستان کسی ایسے تنازعے کو ہوا نہیں دینا چاہتا جس کے اثرات مسلم دنیا پر تفرقے کی صورت میں پڑیں۔ اس (تفرقہ بازی) کی فالٹ لائنز پاکستان میں بھی موجود ہیں اور ان میں ہلچل مچانا اور پھر اس کے نتائج بھگتنا ملک کے مفاد میں نہیں۔سعودی عرب سے ہمارا نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد دین اور اسلام ہے، پاکستان کو یہ جلتی ہوئی آگ ختم کرنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کی قیادت کو چاہئے کہ سعودی عرب، یمن، شام سمیت تمام اسلامی ممالک میں جائیں اور عالم اسلام کو اندرونی خلفشار سے بچانے کیلئے کردار ادا کریں۔ تمام اسلامی ممالک اپنی بقا اور حضرت محمد مصطفی کے دین کے تحفظ کیلئے پہلے اندرونی طور پر امن قائم کریں، آج ہم خود انتشار کا شکار ہیں، ہمیں اس جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں ماضی کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں، ، ہمیں باہمی مشاورت سے خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنی چاہئے،، مشرق وسطیٰ کی جنگ میں پاکستان کو نہیں جانا چاہئے، ، سعودی عرب کی سرزمین کو کوئی خطرہ ہو،کوئی بھی مسلمان یہ برداشت نہیں کرسکتا، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام میں اتحاد قائم کرے، خدا کرے کہ عرب لیگ کو بات سمجھ آجائے، مسلمانوں کی جنگ کسی کے بھی حق میں نہیں۔ پاکستان کو یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہئے، اگر پاکستان نے یمن کی جنگ میں شرکت کی تو یہ ہمیں جلا کر راکھ کردیگی۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور اس کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں لیکن پاکستان کو یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ یہ جنگ ہم سب کو تباہ کر دیگی، کسی کے گھر میں آگ لگائیں گے تو اپنے گھر میں آگ لگ جائیگی۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے لیکن پتہ نہیں ہم کیوں خاموش رہیں۔ اس جنگ میں پاکستان کا کردار کشیدگی کو کم کرنے والا ہونا چاہیئے اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔
اخبار میں پڑھا کہ حکومت نے سعودی عرب کو بچانے کے لئے وہاں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی عرب کے فرمانروا خانہ کعبہ کے متولی ہیں وہ لڑائی بند کرانے کے لئے اقدامات کریں۔ ہمیں مشرق وسطی میں جاری جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ سعودی عرب عام ملک نہیں ہمارے مقدس مقامات ہیں ان کے تحفظ پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان مقدس مقامات کے تحفظ کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گا۔ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت نے سعودی عرب کی یمن کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کی ہے اور سعودی عرب کو کسی قسم کے خطرے کی صورت میں بھرپور عملی امداد مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ملک کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہونا پاکستان کے لیے غیر دانشمندانہ اور تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ یمن کے اندرونی سیاسی اختلافات جو حوثی قبائل اور صدر عبدالربوہ منصور حادی کے حامیوں کے درمیان مسلح جدوجہد کی صورت اختیار کر گئے ہیں، ایران اور سعودی عرب کی مداخلت اور خطے کی مجموعی صورت حال کی وجہ سے واضح طور پر مسلمانوں کے دو مختلف مسالک کے درمیان جنگ کی صورت میں پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
اس انتہائی تباہ کن صورت حال میں سعودی عرب کی مرہون منت پاکستان کی موجود سیاسی قیادت نے سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں حتیٰ کہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے انتہائی دور جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ایسے کسی اقدام کی مخالفت کی ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاکستان پر نظریاتی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں جو کہ ملک اور قوم کے لیے انتہائی حطرناک ثابت ہوں گے۔ پاکستان کو زمینی فوج کو بالکل نہیں بھیجنا چاہیے۔ انھوں نے کہا اس تعاون کو فضائی اور بحری فوج تک محدود رکھنا دانشمندی ہوگی۔ پاکستان میں جاری فوجی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے خیال میں پاکستان فوج کو پہلے ہی انفنٹری یا پیادا فوجی دستوں کی زبردستی کمی کا سامنا ہے۔
یمن کا بحران جلد ختم ہونے والا نہیں اور جنگ میں کسی ‘ایگزٹ اسٹریٹیجی’ یا نکلنے کے راستے کا تعین کیے بغیر داخل ہونا انتہائی غیر دانشمندی ہو گا۔سعودی عرب کی جغرافیائی حیثیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان دفاع کریگا، افغانستان میں بدامنی کے براہ راست نتائج بھگتے ہیں، موجودہ صورتحال میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، ملک میں جو صورتحال ہے وہ بھی ہماری نظر میں ہے۔ سعودی عرب سے جو تعلقات ہیں وہ بھی نظر میں ہیں، ہم نے سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ کیا ہے، جنگ میں شامل ہونے کا کوئی وعدہ نہیں کیا، سعودی عرب میں فوجیں بھیجنا ہوئیں تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے۔ یمن کے باغیوں کیخلاف سعودی عرب کے اتحاد میں شامل ہونے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں اپنے فوج بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، تاہم فیصلہ کیا ہے سعودی عرب پر اگر کوئی مشکل وقت آیا تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عرب میں عرب لیگ کا اجلاس ہونیوالا ہے، وہاں یمن کی صورتحال کے حوالے سے فیصلہ ہوگا، یمن، شام اور عراق میں جنگ جاری ہے۔ افغانستان میں صورتحال بہتری کی طرف جارہی ہے۔ ساری مسلم اْمہ پر ابتلا کا وقت ہے، اس وقت اتحاد و یکجہتی کے قیام اور تفرقات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ اس کا حصہ دار بن کر انہیں کو پھیلایا جائے۔ ہم نے اس حوالے سے بند یا اوپن کمرے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، اس حوالے سے کسی بھی قیاس آرائی کی تردید کرنے کو تیار ہیں۔ عرب لیگ یا او آئی سی میں اسکا فیصلہ ہوجائے، اسکے بعد ہم ضرور وہاں جا کر حالات معلوم کریں گے۔ افغانستان میں بدامنی کے براہ راست نتائج بھگتے ہیں، موجودہ صورتحال میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، ملکی صورتحال پر ہماری نظر میں ہے پاکستان نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے کی صورت میں اس کے دفاع کا وعدہ کیا ہے تاہم وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بن رہے۔
پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا وعدہ اور عزم صرف سعودی عرب کی حفاظت کیلئے ہے اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی تو سعودی عرب کا ضرور دفاع کریں گے اور یہ ہم نے انہیں بتا دیا ہے۔یمن میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم نوازشریف نے وہاں مقیم پاکستانی خاندانوں کے فوری انخلا کی ہدایات دی ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر میں جاری بیان کے مطابق یمن میں مقیم خاندانوں کو موجودہ صورتحال میں ریاستی نظام کے تباہ ہونے کی صورت میں اغوا سمیت ہر طرح کے جرائم کا خطرہ لاحق ہے۔ جنگی بنیادوں پر پاکستانی خاندانوں کی سلامتی کو یقینی بناتے ہوئے انہیں وہاں سے نکالا جائے۔رائٹر کے مطابق بمباری کے باوجود حوثی قبائل کی پیش قدمی جاری ہے اور انہوں نے جنوب اور مشرقی علاقوں میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔یمن میں سعودی عرب اور اتحادی ممالک کی حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ فضائی حملوں میں 39 افراد ہلاک، بیسیوں زخمی ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق 3 فضائی حملے کئے گئے، صدارتی محل اور نواحی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ان حملوں کے دوران صدارتی محل کے نواح میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے۔اتحادی طیاروں نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے بیٹے احمد علی صالح کے زیر قبضہ علاقہ میں فوج کے الاستقلال کیمپ پر حملہ کیا جس میں درجنوں ہلاکتوں کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔ فضائی حملوں کے بعد دارالحکومت صنعا دھماکوں سے گونج اٹھا، حوثی باغی اینٹی ائر کرافٹ مشین گنوں سے جوابی حملے کر رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق باغیوں نے کچھ طیارے گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ یمنی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اگر ان حملوں کے مطلوبہ نتائج نکلتے ہیں اور حوثی باغیوں کی پیش قدمی رک جاتی ہے تو یہ بمباری گھنٹوں میں رک سکتی ہے۔
حوثیوں کی پیش قدمی رکتے ہی فضائی حملے روک دینے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اگر فضائی حملے باغیوں کی پیش قدمی نہ روک سکے تو کیا عرب رہنما زمینی فوج یمن بھیجنے پر تیار ہونگے یا نہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے جاری رہیں گے لیکن وہ ابھی وہاں زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق یمن میں جاری اس آپریشن کو سوڈان، مراکش، مصر اور پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ یمن کی خطرناک صورتحال کے باعث بھارت کے 3 ہزار 500 باشندے بھی یمن میں پھنس گئے۔ بھارتی باشندوں کو لانے کیلئے 2 بحری جہاز روانہ کر دئیے گئے ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقوں عدن کے اردگرد جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مراکش بھی سعودی اتحاد میں شامل ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ جنوبی ائرپورٹس پر پروازیں معمول کے مطابق جاری ہو گئی ہیں۔ یمن میں پاکستانیوں کی تعداد 3 ہزار کے قریب ہے۔ صنعا میں پاکستانیوں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہے۔ دفتر خارجہ نے یمن میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی۔ ۔ دریں اثناء خادمین الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز ال سعود نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کئے گئے آپریشن ”فیصلہ کن طوفان” کے بارے میں علاقائی لیڈروں سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ ترک صدر طیب اردگان نے خطے میں ایرانی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران خلیجی ریاستوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، خطے میں ایرانی اجارہ داری کسی صورت قائم ہونے دینگے۔
تحریر : سجاد علی شاکر
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480