تحریر : رانا ابرار
مادیت کی ترقی سے بھی معاشرے میں اکثریت خستہ حالی کا شکار ہے یہ ترقی عارضی تسکیں تو مہیا کر رہی ہے پر مستقل اطمینان نہیں کر سکتی۔صرف مادیت ہی ترقی کا نام نہیں انسان کی فطرت اسکو مستقل اطمینان کی تلاش میں یہاں تک لے پہنچی ہے ۔ کیونکہ لذت وقتی ہوتی ہے اور اطمینان دیر پا چیز ہے یا یوں کہ لیں ہمیشہ کے لئے ۔ گلوبل دنیا اس وقت میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہی ہے کہیں تو ہتھیاروں کی جنگ ہے تو کہیں معیشت کی بس ایک دوسرے کو گرانے میں لگے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر ہے ۔ لیکن کیا ان کو یہ نہیں پتا کہ کتنے دن جینا ہے ؟ اگرمعاشرے میں انسان نے آنکھ کھولی ہے تو کیا یہاں اسکا کردار صرف کھانا ،پینا ، سونااور انجوائے کرنا ہی ہے اور بس پھر اس کے بعد اس بندھن سے آزاد ہو کر کے اس دنیا کی نظر سے اوجھل ہو جانا ہے ۔بے شک انسان نے اپنے دماغ سے بہت ترقی کی ہے لیکن اس کائنات کے کتنے رازوں کو سمجھ سکاہے ۔اتنی کم زندگی کیوں ہے وجہ کیاہے؟ کیا اس سے آگے بھی کوئی جہاں ہے یا کہ یہ ایک خواب ہے یا یہ زندگی جو ہم جی رہے ہیں کوئی حقیقت نہیں ؟کیا ہے یہ؟ اسکا مقصد کیا ہے ؟۔ انسان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مقصد تو تلاش کر لئے لیکن اصل مقصد کا کبھی سوچا ہے ؟میرے نزدیک یہ معاشرے کے لئے سب سے بڑا سوال ہے ۔اس پر غورو فکر ضروری ہے۔
معاشرے میں جتنا بھی چیک اینڈ بیلنس ہو لیکن گلوبل دنیا کے ہر معاشرے میں افراد کی درجہ بندی ہے چندلوگ ہوتے ہیں جو پورے معاشرے پر اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں اورزندگی کا ہر مزہ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد کی درجہ بندی میں آنے والے افراد درمیانی زندگی گزارتے ہیں ۔سب سے نچلے درجے کے افراد ہمیشہ سے ہی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کو ایک وقت کے کھانے کی توفیق بڑی مشکل ہے۔ اور ہمیشہ سے یہ درجہ بندی ہر معاشرے کی ہر تہذیب میں چلی آرہی ہےطاقتور کمزور کو دبائے یہ نظام خالق نے انسان کے لئے نہیں بنایا بلکہ جانور کے لئے ہے تا کہ انسان اس سے سبق سیکھے کہ شعور اور آزاد مرضی اس چیز کی اجازت نہیں دیتے۔یہ درجہ بندی کیوں ؟ حالانکہ آج کا انسان بہت ترقی کر چکا ہے صنعتی انقلاب کے باوجود ایسا کیوں ہے ؟کیا فائدہ ہوا انسان کو یہ فرق تو مٹ نہ سکا ۔بلکہ اس کے برعکس معاشرے میں جانور کو مقام مل گیا اور اونچے درجے کے شرفا کے جانور بھی تیسرے درجے کے لوگوں سے اچھا کھاتے ہیں اور انکا رہن سہن بھی قدرے بہتر ہے وجہ؟ کس کو فائدہ ہوا اس مادی ترقی کا؟مخصوص لوگوں کو میں تو یہ ہی کہوںگا،
ایک وہ ہی انسان مریخ پر ڈیرہ جمانے جا رہا ہے لیکن دوسری طرف وہ انسان ہے جو جہاں تک تاریخ کو یاد ہے زمین پر سوتا تھا اور آج بھی زمین پر ہی سوتا ہے ۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کیا معاشرتی نظام برابری کی سطح پر انصاف مہیاکر رہا ہے؟اس کے برعکس آج ہر کوئی آزادی آزادی پکار رہا ہے کس چیز کی آزادی چاہئے ؟ ایک ہستے بستے گھر کی ایک عورت کا پردہ تو انہیں تکلیف دیتا ہے لیکن ایک سڑک پر پڑا بے یارو مدد گار بچہ ان کے لطیفوں اور کہانیوں میں ہی نظر آتا ہے ۔اپنے فائدے کا کام کر کے کریڈٹ تو لے لیتے ہیں لیکن معاشرے میں دوسرے انسان جو بھوک سے مر رہے ہیں جن کے تن پر کپڑا نہیں رہنے کو جگہ نہیں اسکا ذمہ دار خالق کو ٹھہراتے ہیں وجہ؟اسپر بھی غور کیجئے۔
معیشت اور سیاست موجودہ معاشرے کے دو بنیادی اور بڑے ادارے ہیں۔اور ان کے تصادم سے ہی آگے چل کر جنگ اور دہشت گردی جنم لیتی ہے ۔عالمگیر دنیامیں بین الاقوام اسی کشمکش میں مبتلا ہیں اب تو حال یہ ہے کہ دو طاقتور لوگوں کی لڑائی میں انکا تو کچھ بگڑ نہیں رہا لیکن کمزور لوگ جو پہلے ہی اس قابل نہیں کہ کسی کے خلاف کوئی اقدامات اٹھائیں ساتھ ہی اس چکی میں پس رہے ہیںنظریاتی جنگ کے لئے سیاست بطور ہتھیار استعمال ہو رہی ہے معدنیات اور خام مال کے حصول کے لئے بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔کہ تم یہاں پیدا کس لئے ہوئے !۔اور نظریاتی سیاست اس عروج پر ہے کہ اپنے ہی اپنوں کو مار رہے ہیں وہ بھی عین حق جان کر اور کچھ دوسروں کی لڑائی اپنے سر مول لے رہے ہیں ۔ان سب چیزوں کے پیچھے سیاست اور معیشت کا تصادم ہے سانپ بھی کچلے جا رہیں اور لاٹھیاں بھی توڑی جار ہی ہیں۔ پورے معاشرے کی معیشت کا دارومدار بینکنگ کے نظام پر ہے اور اس پر کچھ لوگوں کی اجارہ داری ہے وہ ہی ذمہ دار ہیں گلوبل دنیا کے معاشی استحصال کے۔اس طرح بین الاقوامی سیاست اور تعلقات پر قوت فیصلہ کا اختیار بھی کچھ افراد کے پاس ہے ۔ غرض قصہ مختصر ناانصافی۔
معاشرتی علوم کے ماہرین کے نزدیک اس وقت کی جدید عالمگیر دنیا میں طبقات الارض کی دو اقسام ہیں ایک میں قوموں کے معاشی اور سیاسی معاملات کی باگ ڈورصراحتاََدوسری قوموں کے ہاتھ میں ہے ۔یعنی سیاست اور معیشت میں کچھ حاکم ہیں اور کچھ محکوم اسکو (Colonialism) کا نام دیا گیا ہے ۔دوسری(Neocolonialism) تعلقات کی ایک اور نئی عالمگیر طاقت ہے جو براہ راست ربط نہیں لیکن یہاں معیشت پر ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی اجارہ داری ہے۔معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ نسلی امتیاز ہے معاشروں میں کچھ قومیں خود کو دوسری قوموں سے افضل سمجھتیں ہیں بہتر سمجھتیں ہیں طاقتور سمجھتیں ہیں اس کش مکش میں معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔خواہ یہی قومیں خود کو زندہ دل یا آزاد خیال بھی کہیں۔جو ترقی یافتہ اقوام ہیں وہاں بھی یہ ہی حال اور جہاں ترقی یافتہ تہذیب ہے وہاں بھی یہ ہی معاملہ ہے۔کیوں ہے یہ نسلی امتیاز؟ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کون طہ کرے گا یا کو نسا معاشرہ طہ کرے گا کیا غلط ہے اور کیا سہی ہے ؟ایک معاشرے کی تہذیب میں ایک چیز غلط ہے تو وہ ہی چیز دوسرے معاشرے کی تہذیب میں درست ہے ،۔ایک عمل ایک کے ہاں باعث ثواب ہے تو دوسرے کے ہاں تہمت پرستی ہے ۔ایسے ہی اس منطق کوتسلسل میں لیا جائے ایک تہذیب میں ایک فعل جرم ہے تو دوسری میں وہ جرم نہیں تو کیا اس طرح گلوبل کلچر تباہ نہیں ہو گا؟ کیااختلافات نہیں آئیں گے؟۔ یا کہ ایک تہذیب دوسری تہذیب کی نظر میں جو عمل یا فعل جرم ہے اسکو درست مان لے! ۔ایسے ہی بعد ازیں والی تہذیب اولزکر تہذیب کی نظر میں جو فعل جرم ہے جو کہ اسکی نظر میںجرم نہیںہے اسکو جرم مان لے !۔
کہا ںگیا پھر آئیڈیل تہذیب کا نظریہ ؟اس کے لئے ایک آئیڈیل نظام کی ضرورت درپیش ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔اب ایک آئیڈل معاشرے کو ایک عدد نظام کی ضرورت درپیش ہے جو کہ افراد پر منظّم گرفت کر سکے۔تو سب سے بہتر نظام وہ ہی ہے جو خالق نے انسان کو دیا ہو اور جو اس کی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق اسکی رہنمائی کرے تو اس کے لئے جستجو جاری رکھیں اور باقی تو ہم ہر معاملے میں وسعت سوچ رکھتے ہیں اس معاملے پر بھی وسیع نظری کی ضرورت ہے جس سے ہم اپنی منزل تک پہنچ سکیں اور جو نظام (مذہب ) تمام پہلوئوں پر معلومات حاصل ہوں وہاں سے صرف استفادہ کی بجائے اسے اپنائیں ۔جس میں سب کے لئے برابری ہوحدود ہوں زندگی آسان ہو جہاں امید ہو جہاں انسان کواپنی اس مختصر سی زندگی کا احساس ہو۔
تحریر : رانا ابرار