تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
بچپن میں گھر کی چھت پر سوتا تھا تو آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو گھورا کرتا تھا۔ جاننا چاہتا تھا کہ یہ ننے مُنے ستارے کتنی دور اور کتنے بڑے ہیں۔ تھوڑی سے تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ننے مُنے تارے بہت دور اور بہت بڑے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اتنے بڑے ہیں کہ اگر اپنا منہہ کھولیں تو ہماری زمین تو کیا ہمارے سورج اور کئ سیاروں کو بھی نگل لیں۔ آسٹرو نومی کا موضع میرے لئے ہمیشہ سے ہی سب سے پسندیدہ رہا ہے۔ اس عظیم الشان کائنات کو جاننے کی خواہش کبھی بھی کم نہی ہوئ۔ بلکہ سوچتا ہوں کہ اگر پڑھ لکھ جاتا تو شاید آج میں بھی کوئ آسٹرنوٹ یا کوسمونوٹ ہوتا۔ مگر اب صرف نوٹ (این او ٹی) رہہ گیا ہوں۔ آج بھی رات کے وقت اپنے گھر کی کھڑکی سے آسمان کی جانب دیکھتا ہوں تو دو چیزوں پر ضرور غور کرتا ہوں۔
پہلا یہ کہ اس وسیع و عریض کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا ہے اور اس کا اختتام یا اس کا آخری سِرا کہاں ہے۔ اور یہ کہ کرہ ارض اور زندگی کے ارتقائی مراحل کے حوالے سے انسانی قیاس آرائیاں حقیقت کے کتنے نزدیک ہیں ، دوسری بات یہ کہ اگر یہ کائنات اتنی عظیم الشان ، بڑی اور وسیع ہے تو اس کائنات کا بنانے والا کس قدر عظیم ،طاقت والا اور قدرت والا ہوگا۔ ہم عام طور پر کائنات کے حجم اور اس کی وسعتوں کی پیمائش کا آسان لفظوں میں تعین نہی کرسکتے ۔ میں استادوں سے پوچھتا تھا تو مشکل لفظوں میں سمجھاتے تھے۔ اُن کی بلا سے کہ سمجھ آئ یا نہی ۔ میری بیٹی سارہ نے بھی اچانک مجھ سے یہ ہی سوال کیا تو میں بھی گڑبڑا گیا۔ مگر اپنے طریقے سے اسے سمجھا دیا۔ بگ بینگ کا دھماکہ اور اس کے نتیجے میں ستارے ، سیارے ، چاند اور کہکشاؤں کی تخلیق ہم نے کتابوں میں پڑھی ہے ۔ انسان کے محدود علم کے مطابق اس کائنات پر صرف زمین ہی ایک سیارہ ہے جس پر زندگی موجود ہے۔ زمین پر انسانی زندگی کیسے وجود میں آئ یہ ایک الگ موضع ہے ۔ لاطینی لفظ گلوبس (گلوب) یا کرہ ارض یعنی ہماری زمین بہت خوبصورت ہے۔
جس میں سمندر ، دریا ، پہاڑ ، وادیاں ، جانور ،پھول ،پودے درخت اور سب سے بڑھ کر اشرف المخلوقات یعنی انسان بستے ہیں۔ یہ ساری خوبصورتی صرف زمین پر ہی کیوں ہے اور باقی سیاروں اور ستاروں پر کیوں نہی اس کا جواب تو صرف زات الہی کے پاس ہے۔ کیونکہ کائنات سے وابستہ بہت سے ایسے سربستہ راز ہیں جن تک رسائ انسانی عقل کی حیود و قیود سے باہر ہے۔ میری بیٹی سارہ نے مجھ سے پوچھا کہ پاپا ہماری زمین کتنی بڑی ہے۔ تو میں نے اسے جو جواب دیا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ میں نے کہا کہ بیٹا آپ اگر کسی فُٹبال کے میدان میں کسی بھی دیوار یا درخت پر پینسل سے ایک نکتہ بنا دو تو سمجھو کہ یہ نکتہ ہماری زمین ہے ۔ یعنی اتنے بڑے میدان میں ایک حقیر سے نکتے کی یہ حثیت ہے۔ ہماری زمین ہمارے نظام شمسی میں اتنی ہی چھوٹی ہے۔ ہمارا نظام شمسی جو ایک سورج (ستارہ) نو سیاروں اور 166 چاندوں اور ہزاروں تیرتی ہوئ چٹانوں (ایسٹروئیڈ ) پر مشتمل ہے۔
اس میں ہماری زمین ایک نکتے کی مانند ہے۔ اسی طرح ہمارا نظام شمسی جو ایک کہکشاں ( ملکِی وے ) کا حصہ ہے ۔ یہ کہکشاں اتنی وسیع ہے کہ اس میں ہمارے نظام شمسی کی حثیت بھی ایک نکتے کی طرح ہے۔ اسی طرح کائنات میں کروڑوں اور اربوں کہکشاؤں میں ملکی وے بھی ایک نکتے سے زیادہ حثیت نہی رکھتی۔ اسے اور آسان سمجھنا ہو تو جیسے سوئ کی نوک پر ایٹم کے لاکھوں زرات سما سکتے ہیں ۔ ایسے ہی ہماری زمین کی حثیت اس کائنات میں کسی بھی ایٹم کے سب سے چھوٹے زرے سے بھی کہیں معمولی ہے۔ زمین کے حجم کی کائنات میں کیا حثیت ہے اس کا اندازہ اور طریقے سے بھی کیا جا سکتا ہے ۔ جیسے زمیں پر فاصلوں کا تعین کرنے کے لئے ہمارے پاس میٹرز اور کلومیٹرز کی صورت میں اکائیاں موجود ہیں اسی طرح اگر ہم صرف اپنے نظام شمسی کی حدود کو کلومیٹرز میں پیمائیش کریں تو ہمارے کیلکولیٹرز میں ہندسے ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے انسان نے نظام شمسی کی حیود کو جانچنے کے لئے فلکیاتی اکائ ( آسٹرونومیکل یونٹ) بنائے ہیں۔
یعنی ایک آسٹرونومیکل یونٹ زمین کے ایک سو پچاس ملین کلومیٹر کے برابر ہے۔ ابھی تو بات صرف ہمارے نظام شمسی کے فاصلے کی ہو رہی ہے جو کہ اتنا وسیع و عریض ہونے کے باوجود ملکی وے میں ایک نکتے کی حثیت رکھتا ہے ۔ اب اگر ہم نظام شمسی سے باہر فاصلوں کا حساب کرنے بیٹھں تو یہاں کلومیٹرز تو کیا آسٹرونومیکل یونٹ کی بھی کوئ اوقات نہی ہے۔ یہاں تو فاصلے روشنی کی رفتار (نوری سال) سے ناپے جاتے ہیں ۔ یعنی ہماری اس عمیق کائنات میں جو سب سے تیز رفتار چیز سفر کرتی ہے وہ روشنی ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل یا پھر تقریبا 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ زمین کے پڑوس میں سورج کے علاوہ جو قریب ترین ستارہ ہے (پروکسیما سنتوری) وہ بھی 4 اشاریہ 24 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
یعنی آپ اگر کسی سُپر سونک جہاز کی رفتار روشنی کی رفتار کے مطابق بنا لیں اور 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ رفتار سے سفر کر رہیں تب بھی آپ کو اپنے سب سے قریب ستارے تک پہنچنے میں تقریبا سوا چار سال لگیں گے ۔ اور اس کائنات میں ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں ، اربو اور کھربوں ستارے ہیں۔ جن میں سے بہت سے ستارے ایسے بھی ہیں جو شاید ختم ہو چکے ہوں یا ان میں ہیلیم اور ہائیڈروجن کا زخیرہ ختم ہو چکا ہو۔ مگر ان کی روشنی لاکھو کروڑوں نوری سال کا فاصلہ طے کر کے آج ہم تک پہنچ رہی ہے۔
تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم