تحریر : در صدف ایمان
اسلامی ماہ ربیع الاول اور عاشقانِ رسول علیہ الصلوة السلام سے محبت میں ربیع النور کہتے ہیں۔ یعنی نور کی بہار۔ اس نور کی بہار کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کے دلوں کے غنچے کھل جاتے ہیں۔ خوشیاں منائی جاتی ہیں اور رونق بکھیر جاتی ہے۔ چراغاں ہونے لگتا ہے اور ہر مسلمان عید کی آمد کی طرح اس مبارک ماہ کی 12ربیع الاول ولادت با سعادت کا انتظار کرتا ہے اور اسی طرح تیاری بھی کرتا ہے ۔ بے شک مسلمانوں کے لیے 12ربیع الاول عیدوں سے بڑھ کر عید ہے کیونکہ ہمارا ماننا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمیں تمام عید یں اب چاہے عید الاضحی ہو یا پھر عید الفطر ملی صرف عید میلاد النبی ۖ کے طفیل ہیں اور بلاشبہ یہ حقیقت سورج سے زیادہ روشن حقیقت یہی ہے کہ دنیا اس دنیا میں موجود ہر چیز صر ف اور صرف میرے نبی ، پیارے نبی علیہ الصلوة السلام کے لیے تخلیق کی گئی۔ آسمانوں کی رعنائی، زمین کی شنگھائی، دریائی موجیں سمندر کی لہریں، بارشوں کی کن من، ستاروں کی جھلمل، سورج کی تابناکی ، چاند کی بے باکی، پھولوں کی مہک، پرندوں کی چہک یہ سب کیوں اور کس لیے پیدا کیا گیا؟؟؟
صرف اور صرف اس عظیم اعلیٰ و ارفع ذات ہمارے پیارے نبی علیہ الصلوٰة کے لیے۔ وہ ایسی عظیم ذات جن کی ولادت کی خود رب خوشی مناتا ہے ۔ وہ ایسی بلند ذات جن کے بارے میں خود رب فرماتا ہے کہ “اے محبوب اگر میں تمہیں پیدا نہ فرماتا تو یہ دنیا پیدا نہ فرماتا”یہی نہیں آپکا ذکر بلند تھا۔ بلند بیان کیا گیا اس اعلیٰ و ارفع کتاب میں جسے صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگاتے ہیں اس اعلیٰ کتاب میں جسے صر ف باوضو ہاتھ لگاتے ہیں اس کتاب مقدس میں قرآن میں خود خالق کائنات فرمادیا ہے۔”اسی طرح ہم نے تم کو سب امتوں میں افضل کیا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ “(سورة البقرہ143) اسی رب ذوالجلال نے ارشاد فرمادیا “وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین”اور بے شک ۖ ہمارے لیے رحمت بن کر آئے نہ صرف بلکہ ان کی ولادت با سعادت مسلمانوں پر احسان ہے۔ اللہ نے آپ ۖ کو بھیج کر مسلمانوں پر بہت بڑا احسان کیا اور اس بات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے “لقد من اللہ المنومنین ازا بعث فیھہ رسولاً “بے شک اللہ نے مسلمانوں پر ( بڑا ہی) احسان کیا۔
ان میں اپنے رسول کو بھیج دیا۔ ( سورة العمران آیت164) مزید ارشاد ” واما بنعمة ربک فحدث”اور اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو۔(سورة ضحی) اور بے شک ہمارے لیے سب سے بڑھ کر اعلیٰ و ارفع نعمت ہیں رحمت ہیں اور نعمت عظمیٰ ہیں ان کی وجہ سے ہی ایمان نصیب ہوا ۔ ہم کلمہ گو ہوئے اور کفر کی اندھیری وادیوں سے نکال کر ایمان کی روشنیوں میں داخل کیا۔ ایمان کی روشنیوں سے مالا مال ہوگئے۔ اور یہ جو آپ کی مدح میں کیا گیا کہ آپ آئے تو دنیا دیوانی ہوگئی یا پھر قصیدہ حسان بن ثابت مکمل مکمل آپکی مدح میں عرب کے احوال میں بیان ہوتا ہے کہ اور یقینا رب تبارک و تعالیٰ کے اس کلام کی عملی تفسیر تاریخی تفسیر ہے ثبوت ہے۔ کہ “اور بے شک آپ ۖ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا “اس رحمت کو ہم چاہے بھی تو بیان نہیں کرسکتے۔ آپکی ولادت باسعادت واقع ہوئی اور دنیا سے برائی کا وجود مٹنا شروع ہوگیا۔
ٔ٭ آپ تشریف لائے ہر سو خوشی چھا گئی٭ آپ ۖ کی آمد نے دنیا کو منور کردیا٭ جو لوگ برائیوں میں غرق تھے ، صالح انسان کا پیکر بن گئے۔٭ جن کے ہاتھوں کی تلوار برائی کے لیے خون ریزی کے لیے اٹھتی تھی اسلام کی بقاء کے لیے اُٹھنے لگی۔ ٭ وہی لوگ جو مشرک و کافر کہلاتے تھے مسلمان کہلانے لگے۔٭ وہی لوگ جو عزیٰ و لات کو معبود کہتے تھے اللہ کو معبود ماننے لگے وحدہ لاشریک جاننے لگے۔٭ وہی لوگ جو شراب کو پانی سمجھ کر پیتے تھے اسے حرام جاننے لگے۔٭ وہی لوگ جو زنا کو اپنا شعار سمجھتے تھے نکاح کی عصمت کو جاننے لگے۔ ٭ وہی لوگ جن کی زبان پر گالیاں اور بے ہودہ کلمات ہوتے تھے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ جاری رکھنے لگے۔ ٭ جو عورتوں کا مقام بھول چکے تھے انہیں عزت کا تاج پہنا نے لگے۔
٭ جو زندہ بیٹیوں کو دفنادیتے تھے ان کے لا ڈ اُٹھانے لگے، رحمت ماننے لگے۔٭ آپ ۖ کی ذات مبارکہ مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ہے اور آپ دنیا میں تشریف لائے ایمان، اخلاق ، ادب، تعظیم ، قرآن ، شریعت وحدہ لاشریک سے پہچان کروائی اور اسی لیے تو کہا گیا مسلمانوں کے لیے “عید اکبر، نعمت عظمیٰ صرف آپ ۖ کی ذات ہے اور یہ تمام خوشیاں جو منائی جاتی ہیں ۔ اسی اعلیٰ ذات کی ولادت باسعادت کی خوشی کے لیے منائی جاتی ہے۔ اور ولادت باسعادت کی خوشی صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ خالقِ کائنات نے بھی منائی رب تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم فرمایا “آسمانوں اور جنتوں کے تمام دروازے کھول دو سورج کو مزید نور کا لباس پہنا دو۔آپکی ولادت با سعادت کی خوشی میں رب تبارک و تعالیٰ نے اس سال تمام عورتوں کو بیٹے عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں زبر جد کے ستون لگائے جس سے تمام آسمان روشن ہوگئے۔ آپ ۖ کی ولادت کی خوشی میں جھنڈے لہرائے گئے۔ ایک مشرق میں ، ایک مغرب میں اور تیسرا کعبة اللہ کی چھت پر ۔ یہ خوشی منانا اللہ عزوجل کی شان کے مطابق تھا اور مسلمان جو خوشی کرتے ہیں وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق پر اس میں انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ خوشی ایسے منائیں کہ کسی کو تکلیف نہ ہو ، نہ ہی اس خوشی میں بے ادبی ہو، تاکہ ثواب کے بجائے کہیں گناہ نہ ملے۔
تحریر : در صدف ایمان