تحریر : سید مبارک علی شمسی
دنیا بھر میں دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ عالم اسلام سمیت دنیا بھر کے مکین اس خطرناک اور بھیانک عمل کی لپیٹ میں ہیں۔ آئے روز کہیں نہ کہیں بے گناہ اور معصوم لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ کوئی عبادت گاہ تک بھی محفوظ نہیں اس سارے عمل کا ذمہ دار کون ہے یہ تو خالق اکبر ہی جانتا ہے۔ البتہ یہ کہنا ہرگز بے جانہ ہو گا کہ دہشتگرد چاہے کسی بھی مذہب یا مکتب کے ہوں انسان کہلانے کے حقدار نہیںہیں۔ اور نہ ہی ان کا کوئی مذہب ہو سکتا ہے۔
ایک انسان کی جان بچانا اگر ساری انسانیت کو بچانا ہے تو ایک بے گنا ہ انسان کی جان لے لینا ساری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔دہشت گردوں نے گھنائونا کھیل کھیلا اور درجنوں معصوم طالب علموں کو موت کی نیند سلا دیا۔ جس سے ساری قوم سوگوار ہو گئی۔ ابھی سانحہ پشاور کا زخم تازہ تھا کہ شکار پور میں اہل تشیع مسلک کے نمازیوں پر بارود کی بارش کر دی گئی۔ جس سے 60 کے قریب بے گناہ نمازی شہید اور درجنوں شدید زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کو بیتے ابھی ساتواں دن تھا کہ اچانک پھر سے یہی عمل دہرایا گیا اور پشاور کی امام بارگاہ میں نمازیوں کو شہید کر دیا۔
ابھی ان کا کفن میلا نہیں ہو اتھا کہ لاہورپولیس لائن کے باہر ایک خودکش حملہ آور دہشتگرد نے دھماکہ کر کے سیکورٹی پر معمور اہلکاروں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ ابھی لاہور کی فضائیں سوگوار تھیں کہ دہشتگردوں نے اسلام آباد امام بارگاہ میں خون کی ہولی کھیل کر 4 نمازیوں کو شہید کر دیا۔
آئے روز قوم کو ایک نئی تکلیف اور زخموں میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ اگر چہ سانحہ پشاور کے بعد ساری قوم ایک پلیت فارم پر اکھٹی ہو گئی تاہم دہشت گرد اپنی مذموم کاروائیوں میں مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ گذشتہ دنوں مبینہ طور پر خبر ملی کہ یورپ سے پانچ سو پچاس یورپی خواتین عالمی دہشتگرد تنظیم میں شامل ہو چکی ہیں جن کی عراق، شام اور دیگر ممالک میں موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جو برطانوی تھینک ٹینک کے مطابق یورپی خواتین کی دولت اسلامیہ میں شمولیت کی وجوہات میں سے ایک ذاتی رنجش اور جہادیوں سے شادی کی خواہش بھی ہو سکتی ہے۔ اتحادی ممالک کی کاروائیوںمیں ہلاک ہونیوالے جنگجوئوں کی بیوائیںمستقبل میں خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہونے والی خواتین کو اس بات کا قدرے علم نہیں ہوتا کہ وہ کتنا بڑا خطرہ مول لے رہی ہیں جس میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ تاہم کسی طور پر بھی دہشتگردی یا اس سے متعلق ہر عمل خطرناک ہے جس سے انسان کی اپنی جان تو جاتی ہے مگر نہ معلوم کتنے بے گناہ انسان قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چند برس سے دہشتگردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے حکومت کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد حکومت نے کافی حد تک دہشتگردوں کے خلاف گھیرا تنگ کر لیا ہے کیونکہ سابق حکمرانوں کی غلطیوں کے باعث پوری قوم کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اس میں قوانین کے مطابق چلا جائے اور مجرموں کو سزائیں دی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشتگردی ختم نہ ہو۔ حکومت پاکستان دہشتگردوں کے مسلسل حملوں کے جواب میں ملکی نظم و نسق کی بہتری پر توجہ دے رہی ہے۔ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث پاکستان میں بھی اس کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔ پوری قوم تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ہمیں آپس کی رنجشیں بھلا کر ملکی مفاد کے لیئے اخوت اور مذہبی رواداری کے ساتھ چلنا ہو گا ہر محب وطن کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیئے حکومت کا ساتھ دے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ سکولوں ، ہسپتالوں، مساجد اور امام بارگاہوں کی سیکورٹی کو مزید سخت کرے اور ہمارے درمیان ذاتی اختلافات کو کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیئے ملکی سلامی میں دہشت گردوں کے خلاف تبدیلی اور سیاستدانوں کی یکجہتی ملکی سلامتی کے لیئے اہم ضرورت ہے۔ سانحہ پشاور ہو یا سانحہ شکار پور یا سانحہ لاہور ہو یا بھر سانحہ اسلام آباد ملک کے کسی بھی کونے میں ہونیوالی کوئی بھی دہشت گردی کاکوئی واقعہ یقینا ملکی سلامتی پر ضرب کاری تصور کیا جائے گا کوئی بھی محب وطن شہری دہشتگردی کے کسی واقعہ کی حمایت نہیں کر سکتا۔
حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں اور ملکی سلامتی کے لیئے اپنی آپس کی رنجشوں کو بھلا کر ایک پیج پر اکھٹے ہوں اور اقتدار کے اس عالمی کھیل کو ختم ہونا چاہیئے برتری کا یہ عالمی کھیل نجانے اور کتنی زندگیوں کے چراغ گل کریگا؟ اللہ کرے کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے اور حکمران اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر توبہ کریں اور عوام نے ووٹوں سے جو ان پر اعتبار کیا ہے اس پر پورا اترسکیں۔ ملکی سلامتی اور بقاء میں ہم سب کی خیریت اور نیک نامی ہے، پاکستان ہے تو ہم حکمران بھی، سیاستدان بھی اور عوام بھی ہیں، اس لیئے دہشتگردی کی روک تھام کے لیئے ہم سب کومل کر اپنا اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسی میں ہم سب کی فلاح ہے اور ہماری کامیابی اور ترقی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے۔
تحریر : سید مبارک علی شمسی
mubarakshamsi@gmail.com