تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئے مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد اطہار جمہور اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہے اور نہ کسی کی خاص علامت ہے اور ایسا ہو بھی کیونکہ یہ خانوادہ نبوت ہے اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان و عمل ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا آسمانی فیصلہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا اور مشعیت سے یہ مقدس ہستیاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔ (المعجم الکبر للطبران، 10: 156، ح: 10305) فضائل مولا ئے کائنات رضی اللہ عنہ خلیفہ چہارم حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ تحریک اسلامی کے عظیم قائد، نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی معتبر ساتھی، جاں نثار مصطفیٰ اور داماد رسول تھے۔ آپ کی فضیلت کے باب میں ان گنت احادیث منقول ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صلب سے نبی کی ذریت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی فیصلے کرتا ہوں جن کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ حکمت اس میں یہ تھی کہ جب کسی پر غسل واجب ہو گا اور وہ غسل کے لئے گھر سے نکلے گا تو ایسی حالت میں مسجد نبوی میں قدم رکھے گا اور مسجد کا تقدس مجروح ہو گا غسل واجب ہو تو صرف دو افراد مسجد میں قدم رکھ سکتے ہیں ایک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔ حدیث پاک میں آتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے علی میرے اور تمہارے سوا کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس مسجد (نبوی) میں حالت جنابت میں رکھے۔ یہ اس لئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر اور روح اقدس سے ظاہری بھی اور باطنی بھی ایک خاص تعلق قائم ہو چکا تھا۔ اس حدیث کو جن اجل ائمہ کرام نے اپنی کتب میں روایت کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔ (صحح مسلم، 1: 60) حضرت علی شیر خدا نے فرمایا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ علی! مجھے اس رب کی قسم ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں کر سکتا اور سوائے منافق کے کوئی تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ 6۔ ام المومنن حضرت سلمہ رض اللہ عنہا فرمات ہں کہ: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی رضی اللہ عنہ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ (جامع الترمذ، 2: 213) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔
ہم نے ان فرامین رسول کو بھلا دیا ہے، ہم نے خود کو شیعہ سنی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ہم اپنے آنگنوں میں نفرت کی دیواریں تعمیر کر رہے ہیں حالانکہ شیعہ سنی جنگ کا کوئی جواز ہی نہیں۔ علمی اختلافات کو علمی دائرے میں ہی رہنا چاہئے، انہیں نفرت کی بنیاد نہیں بننا چاہئے، مسجدیں اور امام بارگاہیں مقتلوں میں تبدیل ہو رہی ہیں مسلک کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے، بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے اب نفرت اور کدورت کی دیواروں کو گر جانا چاہئے، ہر طرف اخوت اور محبت کے چراغ جلنے چاہئیں، حقیقت ایمان کو سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بڑھ کر بڑی شہادت اور کیا ہوتی۔ چنانچہ حق و باطل کے درمیان یہی کیفیت صحابہ کرام کا معیار تھی۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جتنی احادیث روایت کی گئی ہیں پاکی جائیں گی سب صحاح ستہ اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث سے لی گئی ہیں یہ اس لئے تاکہ معلوم ہوکہ شیعہ اور سنی بھائیوں کے درمیان اختلافات کی جو خلیج حائل کر دی گئی ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے فکری مغالطوں اور غلط فہمیوں کے سوا ان میں کچھ بھی نہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟
پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ (المستدرک، 3: 135) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ (جامع الترمذ، 5: 667، 7: 3797) جنت میں داخل ہونے والا ہراول دستہ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔
المعجم الکبر، 3: 119، ح: 950 حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ اور آپ کی حمایت کرنے والے میرے پاس حوض پر خوشنما چہرے اور سیرابی کی حالت میں آئیں گے ان کے چہرے سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن میرے پاس بھوک کی حالت میں بدنما صورت میں آئیں گے۔ المعجم الکبر، 1: 319 ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی خدمت کی جائے تا کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی نصیب ہو سکے، اگر علمی اختلافات ہو بھی جائیں تو معاملہ جھوٹیانا، ضد سے بالا تر ہو کر افہام و تفہیم سے حل کیا جائے تا کہ کبھی ہم سنی، شیعہ ، وابی دیوبندی وغیرہ گروہوں میں تقسیم نہ ہو سکیں، جب ہم نے اپنی زندگی کا محو و مرکز ” اسلام ” کو بنا لیا یعنی حْیقی اسلام کی روح کو جانچ کر عملی طور پر اپنا لیا تو دنیا امن ، محبت اور پیار کامرکز بن جائے گئی، یا اللہ ! ہم کو صبر و استقامت اور خلفائے راشدین جیسا سچا اور پکا عاشق رسول بنا (آمین)