تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
سرور کائنات ۖ کے نور کی تخلیق سے قبل نور عشق ِ الہی اپنے ہی گرد طواف میں مگن رہتا تھا کیونکہ اِس نور کے اندر اُس محبوب ۖ کا نور جھلکتا تھا یہ سلسلہ صدیوں تک اسی طرح جاری و ساری رہا اُس وقت کائنات کے ایک سرے سے دوسرے تک عمیق اور بعید حدوں تک صرف خدائے واحد کی واحدانیت کے نغمے چہار سو بکھرے ہوئے تھے اور پھر خدائے بزرگ برتر نے اپنے ہی نور سے اپنے محبوب کے نور کو وجود بخشا حضرت ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں جب ودود نے اپنے محبوب ۖ کا نور پیدا فرمایا تو کہا ۔”یعنی اے میرے حسنِ ازلی کے مظہر اور میری قدرت کے شاہکار محبوب ۖ آپ میرے عشق ہیں اور میں آپ ۖ کا عشق ہوں ۔ ”پھر آنے والی کئی صدیوں تک اپنے محبوب ۖ کے نورانی جلوئوں میں ڈوبا رہا۔ اور پھر نور عشقِ الہی نے اپنے محبوب ۖ کے نور حسن سے قرار پکڑا تو اٹھارا ہزار عالمین کی مخلوقات اور کائنات کے ذرے ذرے پر الم نشرح ہوگیا کہ کائنات کی تخلیق کی وجہ محبوب خدا ۖ کی ذاتِ اقدس ہے اگر مالک ِ بے نیاز اول آخر کے روبرو محبوب ِ خدا کی ذات نہ ہوتی تو کبھی بھی افلاک اور کائنات کی تخلیق نہ کر تا ۔ چونکہ محبوب ذات نہ ہوتی تو کبھی بھی افلاک اور کا ئنات کی تخلیق نہ کرتا۔
چونکہ محبوب خدا ۖ کا نور اللہ تبارک تعالی کے نور کا ہی جز ہے تو بلاشبہ اللہ ذولجلال والاکرام کے بعدمقدس اور محبوب ترین ہستی سرتاج الانبیاء ۖ ہی کی ہے۔ کائنات کی تخلیق اور ہر چیز کے خمیر میں محبت ِ عشق رسول ۖ رکھ دی گئی ہے اب اِس سے خدا تعالی محبت کرتا ہے اُسی طرح کائنات کی ہر چیز بھی رسول کریم ۖ سے محبت کرتی ہے لہذا خدا کی رضا اور محب کے لیے شافع ِ دو جہاں ۖ کی محبت بھی لازمی ہے تو ثابت یہ ہوا کہ تمام محبتوں کا مرکز آقائے دو جہاں ۖ کی ذات ہے آپ ۖ سے خالق کائنات محبت کرتے ہیں بلکہ ہر انسان کے خمیر اور روح میں آپ ۖ کی محبت رکھ دی گئی ہے انسانوں کے علاوہ ملائکہ عرش فرش جنات پہاڑ نباتات اشجار چرندے پرندے ہوائیں فضائیں چاند تارے خدا کی ہر تخلیق محبت کرتی ہے ۔ مالک کائنات آپ ۖ پر درود سلام بھیجتا ہے ملائکہ کو بھی یہی حکم ہے اور مومنین کو بھی کرہ ارض پر اربوں انسانوں میں سے خوش قسمت ترین وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی نے ہدایت نصیب کی ایمان کی دولت سے مالا مال کیا مسلمان ہی وہ مقدس جماعت ہے جن کے خمیر میں عشقِ رسول ۖ کی چنگاری موجود ہے زمانے کی گہما گہمی میں یہ محبت کم تو ہو سکتی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوتی تاریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھ لیں جب بھی کسی ظالم نے ناموس ِ رسولت ۖ کو دھندلانے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اندر دبی عشقِ رسول ۖ کی چنگاری آگ کا بھانبھڑ بن گئی اور پھر گستاخ رسول ۖ کو جلا کر خاکستر کر دیا ۔
اہل مغرب مسلمانوں کو تنگ اور عشق ِ رسول ۖ کے جذبات کم کر نے کے لیے جب بھی کوئی حماقت یا گستاخی کرتے ہیں تو مسلمانوں کے خمیر میں دبے عشق ِ رسول ۖ جذبات سراپا احتجاج بن کر کائنات کے چپے چپے پر پھیل جاتے ہیں۔ ناموس ِ رسالت کے لیے بچے نوجوان اور بوڑھے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجاتے ہیں ۔کرہ ارض پر بسنے والے ہر مسلمان کی یہ دلی خواہش ہے کہ وہ کوئی ایسی عبادت ریاضت مجاہدہ کرے کوئی ایسا عمل کرے جو بارگاہ ِ الہی میں قبول ہو، تاکہ جنت کا پروانہ مل سکے ۔ اِس جنت کی تلاش میں عابدوں زاہدوں مفتیوں عالم دینوں نے نجانے کتنے فاصلے طے کئے لوگ بارگاہ ِ الہی میں سرخرو ہو نے کے لیے پیشانیاں رگڑتے رہے سر پٹختے رہے دنیا سے کنارہ کش ہو کر دریائوں سمندروں کے کناروں پر آباد ہوئے جنگلوں صحرائوں پہاڑوں میں صرف اللہ کو راضی کرنے کے لیے لاکھوں سجود میں غرق رہے لاکھوں صوفی درویش و ملا وقف دعا رہے پرہیز گاروں نے تزکیہ نفس کے کٹھن مراحل خوشی خوشی طے کئے خدا کو منانے اور جنت پانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے عبادت ریاضت مجاہدوں کے پل صراط سے گزرے یقینا خدا اِن سب کی محبت عبادت ریاضت قبول کرے گا لیکن شان دیکھیں اُن عاشقان ِ رسول ۖ کی جنہوں نے نہ چلا کیا نہ مجاہدہ نہ عمرہ نہ حج نہ لمبی چوڑی عبادت ریاضت نہ کسی بڑے مکتب میں داخلہ لیا نہ کسی عظیم خانقاہ میں تصوف کے اسرار و رموز سے آگا ہی حاصل کی نہ کشف المحجوب عارف ِ المعارف رسالہ قشیریہ فتوحاتِ مکیہ کا مطالعہ کیا نہ فصوص الحکم کے رموز سے آشنائی حاصل کی نہ حبسِ دم نہ ریاضت نہ مجاہدے نہ اسم اعظم کی لمبی ریاضتیں نہ قصیدہ غوثیہ پر کامل عبور اور نہ ہی حزب البحر کا ورد نہ ہی فلسفہ و منطق سے آشنا ہوئے نہ مسجد کی لوٹے بھرے نہ کسی حلقہ تربیت میں اپنی تربیت کے تبلیغی گشت میں حصہ لیا نہ ہی پاکبازی کا خبط سوار ہوا نہ علما دین کے پاس زیادہ وقت گزارا نہ ہی اہل علم کے سامنے بیٹھے نہ ہی لا ئبریریوں میں دن رات غرق رہے ۔
خدا معلوم کتنی لمبی چوڑی ریاضت کے بعد خواجہ معین الدین چشتی اجمیری بابا فرید گنج شکر شیخ عبدالقادر جیلانی اِس کرہ ارض پر سورج کی طرح طلوع ہوئے لیکن چشم فلک اور اہل دنیا نے حیرت سے دیکھا جب ایک بڑھئی کی دوکان سے غازی علم دین اٹھتا ہے اور ایک ہی قدم میں صدیوں کے فاصلوں کو طے کر جاتا ہے ۔ شاعرِ مشرق علا مہ اقبال کو جب غازی علم الدین کے بارے میں بتایا گیا کہ ایک اکیس سالہ ان پڑھ اور مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخ َ رسول راج پال کو بہت ہمت جرات اور پھرتی سے قتل کر دیا تو علامہ اقبال نے رشک اور حیرت سے فرمایا۔
”اسی گلاں ای کردے رہ گئے تے تر کھاناں دا منڈا بازی لے گیا”
(ہم با تیں ہی بناتے رہ گئے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا) یقینا حضرت علامہ اقبال نے اِسی موقع کے لیے کہا تھا۔
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اِس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں نے
جس زمانے میں غازی علم الدین نے یہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا گستاخ ِ رسول کو واصل جہنم کیا یقینا اس دور میں لاہور میں بہت سارے اہل علم دانشور اور علما دین تحریروں تقریروں میں لگے ہوں گے ادیبوں خطیبوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہوگا تقریروں اور تحریروں اور لفاظی سے بہت کچھ کہا ہوگا ۔ لاکھوں لوگوں نے اپنے اپنے طریقے سے تنقید بھی کی ہوگی ۔ لیکن شاتم رسول کو جہنم واصل کرنے کی سعادت اِن میں سے کسی کو بھی حاصل نہ ہوئی یہ سعادت کسی عالم دین دانشور شاعر خطیب صوفی کسی امام ادب و انشاء کسی سیاسی راہنما کے حصے میں نہ آئی بلکہ ایک معمولی مزدور کے حصے میں جو ممتاز دانشور یا اہل علم نہ تھا
معمولی کا ریگر عام مزدور جس کی پیشانی پر لمبے سجدوں کے نشان نہ تھے نہ ہی علم و فضل کے گہرے آثار بلکہ ہاتھوں میں لوہے کے اوزار تھے خدا معلوم وہ پکا نمازی تھا یا نہیں لیکن حقیقی اور اصلی نمازی نکلا غازی علم الدین شہید کو دیکھ کر کم از کم یہ تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مالک بے نیاز کسی کی عبا دت کے طول و عرض پر نہیں جاتا بلکہ کسی کے بے غرض جذبے کو شرف قبولیت بخش کر اُسے قیامت تک امر کر دیتا ہے وہ خدا کسی کے ماتھے کا محراب نہیں دیکھتا بلکہ قلب و روح کا اضطراب اور حقیقی جذبہ دیکھتا ہے۔ غازی علم الدین نے 21 برس کی عمر میں صدیوں کا سفر اِس شان سے کیا کہ اس کی گردِ سفر کا ایک ایک ذرہ عاشقان رسول ۖ کے لیے نشان راہ بن گیا۔ قیامت تک جب بھی ناموس رسالت ۖ پر حرف آئے گا تو غازی علم الدین یا ممتاز قادری صرف ایک قدم اٹھائے گا جس کا دوسرا قدم جنت الفردوس میں ہوگا قیامت تک کرہ ارض پر ایسے غازی سورج کی طرح طلوع ہوتے رہیں گے۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956