60ء کی دہائی میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تھے۔ وہ اس سے قبل مسلم لیگی حکومت میں وزیر تھے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے میجر آفتاب کو طلبہ امورکی ذمے داری دی تھی۔ میجر آفتاب کراچی یونیورسٹی میں آنے سے پہلے اردو کالج میں ملازم تھے جہاں بابائے اردو مولوی عبدالحق موجود تھے۔
مولوی عبدالحق نے ساری زندگی اردو کے لیے وقف کی تھی۔انھوں نے مہاتما گاندھی سے اردوکے لیے جھگڑا کیا تھا۔ میجر آفتاب اور ان کے ساتھیوں کو مولوی عبدالحق کی سرگرمیاں پسند نہیں تھیں۔ مولوی صاحب عمر کے آخری حصے میں تھے۔ان کو انجمن ترقی اردو اور اردو کالج سے بے دخل کرنے کی سازش کی گئی۔ مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو کا المیہ نامی کتاب میں اس کی تفصیلات تحریرکی ہیں۔ مولوی عبدالحق کی مدد کے لیے جمیل الدین عالی اور قدرت اﷲ شہاب آگے آئے۔
قدرت ﷲ شہاب اور جمیل الدین عالی اس زمانے میں ایوانِ صدر میں تعینات تھے۔ اس وقت کے صدر ایوب خان نے مداخلت کی اور میجر صاحب اردو کالج سے بے دخل ہو کر کراچی یونیورسٹی آگئے۔ انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں طلبا اورطالبات کے اخلاق کو درست کرنے اور بائیں بازو کے طلبہ کے دماغوں کو تبدیل کرنے کی مہم شروع کی اور شہرۂ آفاق حکم جاری کیا کہ طلباء اورطالبات کے درمیان 4 فٹ کا فاصلہ ہوگا۔ بعض پرانے طالب علم بتاتے ہیں کہ میجرصاحب ذاتی طور پر معائنہ کرتے تھے اور کم فاصلے پر امتناعی کارروائی کرتے تھے۔ میجر صاحب طالب علموں کے اخلاق کو تو بہتر نہیں کرپائے مگر دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کی جڑیں ضرورمضبوط کردیں۔
1974-73ء میں اس طلبہ تنظیم نے طلبا اورطالبات کے اخلاق کو درست کرنے کا ٹھیکہ لیا۔ تھنڈر اسکواڈ کے لڑکے طلبا اور طالبات پر تشدد کرتے اور مخالف طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا۔ طلبہ یونین کے انتخابات سے پہلے یہ زیادہ متحرک ہوجاتے۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دور آیا۔ ملک میں ہیروئن اورکلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ یونیورسٹی میں متحرک گروپوں میں تصادم کے دوران گولیاں چلنے لگیں۔ دائیں اوربائیں بازو کی طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے متعدد طالب علم اس صورتحال میں جان سے گئے۔
جنرل ضیاء نے طلبہ یونین کے ادارے پر پابندی لگادی، تھنڈر اسکواڈ ضرب المثل بن گیا۔ طلباء اورطالبات کے درمیان کرکٹ میچ ہوئے تو دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے بعض سرپھرے نوجوانوں کو جوش آیا۔انھوں نے طالب علموں کی پٹائی کی اور کرکٹ کی پچ اکھاڑ دی۔ ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے واقعات کا خوب چرچا ہوا۔ پھردنیا تبدیل ہوگئی۔ وقت نے دائیں اور بائیں بازو والوں کو بہت کچھ سکھادیا اوردائیں بازوکی طلبہ تنظیم والے اپنے جلسوں میں موسیقی کا استعمال کرنے لگے۔ گانے گائے جانے لگے، فیضؔ اور حبیب جالبؔ کے اشعار اب ہر تنظیم کے کارکنوں کے جذبات کوگرمانے لگے۔ کبھی کسی شعبہ میں طلبا و طالبات پکنک پر جاتے تو دائیں بازو والے ہنگامہ کرتے مگر اب ایسے پروگراموں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ سابق طالب علموں کے اجتماع میں تھنڈر اسکواڈ کا ذکر ہوتا، سب اس ذکر سے لطف اندوز ہوتے مگر پنجاب یونیورسٹی اور اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں پھر طلباء اور طالبات پر پابندیوں اور تشدد کے واقعات سے نئے سوالات واضح ہوگئے۔
یہ حقیقت ہے کہ مرد اورعورت مل کر گھر سے لے کر ریاست تک کا نظام چلاتے ہیں۔ پھر اب دنیا میں اس بحث کو ختم ہوئے صدی گزرگئی کہ لڑکیوں کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی لڑکوں کی ہے۔ پھر یہ بحث بھی طے ہوچکی کہ خواتین کا کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جبتک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر شعبہ میں متحرک نہیں ہونگی نہ تو غربت ختم ہوگی اور نہ یہ ملک ترقی کرسکے گا۔اس بناء پر مخلوط تعلیم ہی خواتین اور مردوں میں اعتماد پیدا کرسکتی ہے۔
جب خواتین مردوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گی تو یہ اعتماد انھیں زندگی کے ہر شعبے میں میسر آئے گا مگر جنرل ضیاء کے دور میں نصاب میں ہونے والی تبدیلیوں اورمخصوص ذہن کے افراد کو اساتذہ کی حیثیت سے تقرری کی بناء پر رجعت پسندی نے اپنی جڑیں گہری کرلیں۔ طالبانائزیشن کی اعلیٰ سطح پر سرپرستی سے یونیورسٹیاں بھی متاثر ہوئیں۔ اس کا اظہارکبھی سائنس کے مضامین میں مذہبی مواد شایع کرکے، کبھی اقتصادیات، کامرس اور بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے جدید مضامین میں رجعت پسندانہ موضوعات پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کر کے اورکبھی مخلوط تعلیم کے خلاف عزائم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پھر معاملہ صرف طلبا اورطالبات پر تشدد تک محدود نہیں رہا بلکہ یونیورسٹیوں سے ایسے جنونی عناصر نکلتے ہیں جو خودکش دھماکا کرتے ہیں اور دیگر فرقوں کے افراد کو اس لیے قتل کردیتے ہیں کہ ان نوجوانوں کی نظر میں دیگر فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان نہیں ہیں۔
یہ لوگ اپنی تخریبی سرگرمیوں میں خواتین کو استعمال تو کرتے ہیں مگر زندگی کی دوڑ میں ان کی شرکت کو پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مخلوط تعلیم ،خواتین کے کھیلوں، فنون لطیفہ اور دیگر سرگرمیوں کی مخالفت کرنے والے دہرا معیار رکھتے ہیں۔ ان کے سرپرست امریکا اور یورپ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ملازمتیں اورکاروبار کرتے ہیں اور مغرب کے مخلوط معاشروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ملک آ کر نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندا کرتے ہیں۔
دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے نامزد کردہ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے صدر اور سیکریٹری کی ڈائریکٹری یاد کرنے والے ایک صحافی کہتے ہیں کہ تھنڈر اسکواڈ کی سرپرستی کرنے والے طلبہ یونین کے ایک سابق صدر بش ہاؤس لندن کے کلب میں بیٹھتے ہیں اور ماضی کے ذکر پر نادم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سابق صدر امریکا میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سرپرستی میں زندگی گزار رہے ہیں اور مخلوط ماحول میںشریک ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ رہنما طلبا اور طالبات کے ساتھ بیٹھنے کو فحاشی سے تشبیہہ دیتے تھے۔
اس مسئلے کا ایک انتظامی حل تو یہ ہے کہ ضلع اور یونیورسٹی انتظامیہ ان عناصرکے خلاف تادیبی کارروائی کرے تاکہ قانون کے خوف سے یہ عناصر طلبا اورطالبات کو ہراساں نہ کریں مگر یہ عارضی حل ہے۔ مستقل حل ان نوجوانوں کے ذہنوں کی تبدیلی کا ہے۔ ذہنوں کی تبدیلی کے لیے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ضروری ہیں اور یہ طلبا کے سطح کے نصاب میں تبدیلی سے لے کر اساتذہ کے انتخاب تک ہونی چاہیے۔ ریاست کی اعلیٰ سطح سے یہ پیغام باربار آنا چاہیے کہ خواتین اور مردوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین کو تعلیم اور مردوں کے ساتھ تمام سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق ہے۔
یہ خواتین کا حق ہے کہ وہ طے کریں کہ انھیں کس طرح کی سرگرمی میں حصہ لینا ہے۔ یہ پیغام ریاست سے خاندان اور خاندان سے ریاست کی طرف جانا چاہیے، یوں وہ لوگ تنہا ہونگے۔ پنجاب یونیورسٹی کے معاملے کو علیحدگی میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ معاملہ معاشرے کی ساخت سے منسلک ہے۔ ہر سطح پرطالبانائزیشن کے خاتمے کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔