تحریر : ملک محمد سلمان
منظرنامہ بدلتا ہے اور ایم کیو ایم کے سنئیر رہنما واسع جلیل نے فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے تھوڑی دیر بعد ہی دوٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ فیصلے اب بھی الطاف حسین ہی کریں گے۔ فاروق ستار نے الطاف حسین سے اعلانِ لاتعلقی نہیں کیا بلکہ اْس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ جماعت کے فیصلوں کی توثیق پہلے بھی الطاف حسین کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی وہ ہی کریں گے۔ ۔واسع جلیل نے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ الطاف بھائی کے پاکستان مخالف نعرے لگانے پراسے کوئی پشیمانی نہیں ہے۔
لاتعلقی کاڈرامے رچانے والے فاروق ستار نے الطاف حسین کی تصاویر والے پوسٹر اتارنے پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ الطاف بھائی کی تصاویر اتارنا انتہائی بھونڈی حرکت ہے ،تصاویر اتارنے سے دلوں سے محبت نہیں ختم کی جاسکتی۔دوسری طرف لطاف حسین پاکستان مردہ باد کے نعروں سے آگے بڑھ کر امریکہ، انڈیا، برطانیہ، اسرائیل، ایران اور افغانستان کو پاکستان پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے خود بھی اس میں شرکت کے عزم کا اظہار کرتا ہے اور یہاں اس کے حواری الطاف کے پوسٹر اتارنے پر تیور دکھا رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے قوم سے معافی مانگنے کے ایک دن بعد ہی رابطہ کمیٹی لندن کی میٹنگ میں پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلا جو گذشتہ تقریر سے بھی کئی ہاتھ آگے تھا، پاکستان کو تقسیم کرنے اور اسکو تباہ و برباد کرنے کے عزائم کو دہرا یا۔رابطہ کمیٹی کے ممبران نے الطاف حسین کی بات کی تائیدکرتے ہو ئے کہا کہ ”پاکستان کی تقسیم نظر آرہی ہے،ایم کیو ایم پر مشکل وقت ہے گزر جائے گا” کیا پوری ایم کیو ایم میں صرف الطاف حسین ایک برا آدمی تھا ؟؟ باقی نیک و پرہیز گار لوگ تھے جو بھٹک گئے تھے ؟ہزاروں قتل کرکے اب معافی مانگ کر سب حاجی بن گئے کیا ؟؟
ٹویٹر پر پاکستان زندہ باد کے الفاظ لکھ کرفرضی کاروائی مکمل کرنے والوں کے بارے میںسب کو معلوم ہے کہ ویٹر سے ارب پتی بننے والوں کا مائنڈسیٹ کیا ہو گا۔ ہیوسٹن سے لے کر لاس اینجلزتک بکھری ہوئی گراں بہا جائدادوں نے مڈل کلاس کے اِن سپوتوں کے ”روشن” چہرے دنیا پر خوب عیاں کر رکھے ہیں۔
بابر غوری جو 20 سال پہلے لاروش ریسٹورنٹ میں چند ہزار روپے کی تنخواہ پر مینیجر تھا اب اس کا شمار کراچی کے ارب پتی بلڈرز میں ہوتا ہے۔عادل صدیقی وزیر بننے سے پہلے ہوائی چپل پہنے سڑکوں پر مارے مارے پھرتا تھا آج اٹلی کے بنے جوتے پہنے لمبی لمبی گاڑیوں میں گھومتا ہے ۔”این آر او” سے معافی نامہ لینے والے عشرت العباد گونر سندھ بننے سے پہلے برطانیہ میں بیروزگاری الاؤنس پر گزارا کر رہے تھے اور اب اربوں میں کھیل رہے ہیں۔حیدر عباس رضوی اور اس کا سرکاری ملازم بھائی چند سالوں میں رشوت اور کمیشن سے کروڑ پتی بن گئے۔فیصل سبزواری پاپوش نگر کے کوارٹر سے گلشن اقبال کی فضاؤں میںجبکہ نو منتخب مئیر کراچی وسیم اختر جس کا اپنا ولیمہ سڑک پر شامیانہ لگا کر ہواتھا اب اس کے بچوں کے فائیو اسٹار طرز کے ولیمے ہو رہے ہیں۔
کراچی ہمارا ہے کا نعرہ لگانے والاسابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال جس نے ترقیاتی کاموں میں کروڑوں روپے غبن کر کے پاکستان سے باہر اثاثے بنائے اور الطاف کو حصہ نہ دینے پر تین ہفتے اپنے گھر نظر بند رہا اور متحدہ کے کارکنوں سے جوتے کھاتا رہا اور آخر الطاف کو 70 فیصد حصہ دے کر اپنی جان چھڑائی۔ قائد تحریک الطاف حسین جس نے ہنڈا 50 سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور گزشتہ 30 سالوں میں زکوة، فطرہ، صدقہ، کھالیں، چندے، بھتے، کمیشن اور ایم کیو ایم کے ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹروں کی خرید و فروخت سے اربوں روپے کمائے گزشتہ 20 سالوں سے برطانیہ میں عیاشی سے جلادوطنی کاٹ کر رہا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے مفاہمتی آرڈیننس سے گنگا نہانے والاالطاف قتل کے 31 مقدمات سمیت 72مقدمات میں نامزد اور مطلوب ملزم تھا۔
تن من سے دن رات ایک کیے قائد ایم کیو ایم کے دفاع کے لئے مصروف عمل عامر لیاقت کی دال فاروق ستار کے سامنے گل نہیں سکی توایسے میں عامر لیاقت کا ایم کیوایم چھوڑنا بنتا تھا،وہ بے چارہ کب سے الطاف حسین کو باور کرا رہا تھا کہ وہ اس کا بالکل ٹھیک ٹھیک نائب بن سکتا ہے،لیکن قرعہ فال فاروق ستار کے نام نکلا ۔اب وہ بے چارا ایم کیوایم نہ چھوڑتا تو کیا کرتا! ایک زمانہ تھا کہ ایم کیو ایم نے میڈیا کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ اخبارات کی سرخیاں ایم کیو ایم کے کارندے دفاتر میں بیٹھ کرلکھواتے تھے۔
ایم کیو ایم کے کہنے پر سرخیاں نہ لگانے والوں کے اخبارات کے دفاتر پر حملے ہوتے تھے ان اخبارات کو جلا ڈالتے ان کو تقسیم نہ کرنے دیتے ۔ نجی ٹی وی الطاف حسین صاحب کی اللی تللی تقاریر خوف کی وجہ سے نشر کرتے تھے۔ شہر قائد میں چوری ،ڈکیٹی ،ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول تھا ،جان و مال کچھ محفوظ نہ تھا،بھائی لوگوں نے ”نوگوایریاز”بنا رکھے تھے ،کھلم کھلاخون کی ہولی کھیلی جاتی ،قاتل دندناتے پھرتے تھے مگر میڈیا سب دیکھتے ،سنتے اور جانتے ہوئے بھی نامعلوم افراد لکھنے پر مجبور ہوتا۔ نامعلوم افراد نے بینک لوٹ لیا،نامعلوم افراد نے ٹارگٹ کلنگ کی وغیرہ وغیرہ۔حالات بدلے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے رینجرز نے شرپسند عناصر کے خلاف بلاامتیاز کاروائیاں شروع کی تو شہر کا کھویا ہوا امن بحال ہونا شروع ہوا۔
زبردستی ہرتال کروانے والوں کوپسپائی اختیار کرنا پڑی تو میڈیا کو بھی ہمت ملی اور نامعلوم افراد سے بات آگے بڑھ کر ”ملزمان کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے”تک پہنچی۔ رینجر ز کے بھرپور ایکشن کے بعد میڈیا کو بھی زبان اور بینائی مل گئی اور پہلی دفعہ کھل کر نامعلوم افراد کا پتامعلوم ہوا،ٹی وی اینکرز کے لیے” نامعلوم” کومعلوم ہوتے دیکھا اور ٹی وی اخبارات نے بلا خوف و خطر ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کا نام لیا۔ جیسے ہی ایم کیو ایم کو تھوڑا ریلیف ملا تو میڈیا کوچاروناچار” بیک فٹ” پر جانا پڑھا اور نئی ٹرم نکالنا پڑی کہ ملزمان کا تعلق لندن سیکرٹیریٹ کے عسکری ونگ سے ہے۔
تحریر : ملک محمد سلمان
0300/0333 8080566