تحریر: حافظ محمد فیصل خالد
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قصبہ میں ایک با اثر سردار رہتاتھا ۔ بے پناہ اثر و رسوخ کی وجہ سے اس سردار نے عالاقہ میں اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا اور اسی بناء پر اس قصبہ کے مکینوں کا جینا محال کیا ہوا تھا۔ جب دل کرتا، اور جسکو دل کراتا، سزا دیتا اور بعد میں اپنی طرف سے من گھڑت کہانیاں بنا کر عوام الناس کو مطمئن کرنے کی کامیاب مگر در حقیقت ناکام کوشش کرتا۔
چناچہ ایک وقت ایسا آیا کہ قصبے کے سب مکینوں نے سردار کے اس غاصبانہ رویے سے تنگ آکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ سردار کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ اب جب سردار نے حسبِ معمول علاقہ مکینوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا ارادہ کیا تو اس مرتبہ عوام نے سردار کے اس فعل کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ متحدہو کر سردار کا مقابلہ کیا۔جس کے نتیجے سرادرکا کچھ نقصان بھی ہوا۔ اس واقعہ کے بعد سرادر نے اپنے ہم پلہ لوگوں کی ایک میٹنگ بلائی اور اپنا مئوقف پیش کیا۔ محفل میں موجود تمام شرکاء نے سردارکا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔جس کے بعداس قصبہ کے رہائشیوںکی شامت آگئی اور بلا تفریق سب کو خمیازہ بھگتا پڑا۔
یہی حال آج کل ہماری نامنہاد مہذب اقوام کا ہے۔ تہذیب کا لبادہ اوڑے یہ درندے خود جسکو چاہیں، جیسے چاہیں ماریں الزام لگائیں پابدیاں لگائیں ، انکو کوئی پوچھنے والا نہیں۔یہ جہاں چاہیں ، جسکو چاہیں دہشتگرد کا لیبل لگا کر سزا دے دیں انکے لئے سب جائز ہے۔ یہ خود انسانیت کے تحفظ کے نام پر انسانی اقدار کی دھجیاں اڑا دیں وہ جائز مگر کسی دوسرے سے کسی جانور کی حق تلفی بھی ہوجائے تو وہ گناہِ کبیرا ٹھرا دیا جائے۔
پہلے انہوں نے ان شدت پسند گروہوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کی جسکی سب سے بڑی مثال افغان طالبان ہیں جو کہ تہذیب کا لبادہ اوڑے ان درندوں کیلئے محترم ہ مکرم تھے کیوونکہ اس وقت ان مہذب جانوروں کو روس کے خلاف ان شدت پسندوں کی ضرورت تھی۔اور جب ضرورت پوری ہوگئی تو یہی لوگ دہشتگرد کہلائے۔ اور ان دہشتدردوں کے خلاف جنگ میں لاکھوںکی تعداد میں عوام مارے گئے ۔
اب یہی مہذب لوگ داعش اور اس جیسی شدت پسند تنظیموں کی معاونت کرتے رہے ہیں اور تا حال کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب دنیا کو دکھانے کیلئے اپنے ان سہولت کاروں کے خلاف شدت پسندی کے خاتمے کے نام پرکئے جانے والے آپریشن میں جانوروں کی طرح انسانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جب یہ لوگ انہی شدت پسندوں کو فنڈنگ کریں تو اس وقت سب جائز مگر جب ان متعلقہ مفاداد پورے ہوجائیں تو یہی دوست پھر دشمن بن جاتے ہیں؟۔ خود یہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزدا ظہارِ رائے سے تعبیر کریں اور ڈنکے کی چوٹ پر اسکی اشاعت بھی کریں تو ٹھیک مگر جب اس فعل ابلیس کا ردِ عمل آئے تو پھر انسانی حقوق کو خاطر خواہ رکھنے کا واویلا۔ خودیہ شام، مصر، افغانستان ، عراق، فلسطین اور پاکستان میں کھلے عام دہشتگردی کریں اور سرِ عام لوگوں کا قتلِ عام کریں تو سب جائز اور جب اپنے چند افراد مارے جائیں تو انسانیت یاد آجاتی ہے۔ کیاانکے نزدیک یہ ہے انسانیت کا معیار ہے؟ کیا انسانیت محض یورپ اور بالخصوص سفید فام لوگوں سے شروع ہو کر انہی پہ ختم ہو جاتی ہے؟
یہ وہ چند بنیادی نقطے ہیں جو ان مہذب لوگوں کو شاید سمجھ نہیں آتے اور اگر آتے تو وہ انکو کسی خاطرلانا مناسب نہیں سمجھتے ۔اور یہی وہ منافقانہ رویہ ہے جو انسانیت کے یہ نامور ٹھیکیدار عرصہ دراز سے اپنائے ہوئے ہیں۔ اور اب بھی اگر انکی یہی روش رہی تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا امن و امان تباہ کرنے میں ان کا بنیادی کردار ہو گا۔اور انکا حال بھی پھر اس سردار والا ہوگا جو ساری عمر کمزوروں پر ظلم کرتا رہا اور جب اپنی باری آئی تو ایک وار بھی نہ سہ سکا (جسکی حالیہ مثال پیرس حملے ہیں)۔
آخر میںمیںکہتا چلوںکہ میں دنیا کے ہر کونے میں ہونے والی شدن پسندی اور دہشتگردی کی بھرپور مذمت کرتا ہوںاور فرانس میںمارے جانے والے افرادسے پہلے میں ان لوگوں کیلئے اظہارِ افسوس کرتا ہوں جو پاکستان، افغانستان، عراق، چام، فلسطین کشمیر و دیگر جگہوں پر بلا جرم و جواز مارے گئے۔
تحریر: حافظ محمد فیصل خالد