ہو سکتا ہے آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہو جو ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ اتنی زیادہ تنخواہ کے باوجود ہمارے پیسے کہاں گئے؟
لاہور: اصل میں روزمرہ اخراجات کے حوالے سے ہماری کچھ عادتیں ایسی ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے محنت سے کمایا گیا پیسہ پانی کی طرح بہہ جاتا ہے اور ہم بعد میں سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ آخر پیسے گئے کہاں؟ کیا آپ قریباً روزانہ ہی باہر سے کھانا کھاتے ہیں؟ کیا آپ وہ چیز خریدنے میں بھی جلدی دکھاتے ہیں جن کی درحقیقت آپ کو ضرورت نہیں ہوتی؟ کیا آپ اپنے دوست احباب جیسی زندگی اپنانے کے لیے چیزیں خریدتے ہیں؟ یہ اور اس جیسی کئی معمولی عادتیں ہیں جو آپ کو ماہانہ ہزاروں روپوں سے محروم کر دیتی ہیں۔ ان سے کیسے بچا جائے؟ اس کے لیے کچھ مشورے حاضر ہیں۔
متبادل کی تلاش
آپ جس علاقے میں رہتے ہیں، کیا وہاں آپ کا رہنا ضروری ہے؟ کیا کسی ایسے علاقے میں منتقل ہو سکتے ہیں جو نسبتاً سستا ہو؟ یا پھر آپ کے پاس جو گاڑی ہے، کیا اس کا ہونا لازمی ہے؟ اس کا سستا متبادل بھی تو ہو سکتا ہے؟ ہم اپنے لازمی اخراجات پر سوچ بچار نہیں کرتے اور یوں کئی ایسی چیزوں پر اپنا پیسہ خرچ کر دیتے ہیں جن کی حقیقت میں ہمیں ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے اپنے اخراجات پر کڑی نظر رکھیں اور ان کے سستے متبادل ضرور دیکھیں چاہے معاملہ گھر اور گاڑی جیسی بڑی چیزوں کا ہی کیوں نہ ہو۔
کام خود کریں
نئے کام سیکھنا اور پھر انہیں خود سے پایہ تکمیل تک پہنچانا، جہاں آپ کے اخراجات پر روک لگائے گا وہیں اپنا کام خود کرنے کا جو دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ بھی آپ کو نصیب ہو گا۔ گھر کے اندر رنگ کرنا ہو یا گاڑی کی مرمت ہو، کھانا پکانا ہو یا کیک بنانا، خود سلائی کرنا ہو یا پلمبنگ کے مسائل کو خود حل کرنا، ایسے کاموں کی ایک طویل فہرست ہو سکتی ہے جو آپ باآسانی سیکھ سکتے ہیں اور خود انجام دے کر اپنے قیمتی پیسوں کو بچا سکتے ہیں۔
ایک انوکھا طریقہ
جب آپ خریداری کرتے ہیں تو کئی چیزوں پر دل آ جاتا ہے۔ اگر آپ پہلی نظر ہی میں کسی چیز کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو ایک منٹ کے لیے ٹھہر جائیں۔ اسے مت خریدیں بلکہ اس دکان کو یاد کر لیں۔ چند گھنٹوں بعد دوبارہ اس دکان کا چکر لگائیں، دوسرے دن پھر، ممکن ہو تو چند دن بعد دوبارہ۔ ہر مرتبہ آپ کی کیفیت مختلف ہو گی، شروع میں دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہو گی، لیکن اس کی آواز پر کان نہ دھریں۔ دل کے کہنے پر کبھی خریداری مت کریں، اس کے لیے ہمیشہ دماغ کا استعمال کریں۔ خود سے یہ سوال بھی ضرور کریں کہ کیا خریداری کے کچھ مہینے بعد بھی مجھے اس چیز سے اتنا فائدہ ہو گا؟
کچھ حساب کتاب
جب بھی خریداری کرنے جائیں، حساب کتاب ضرور کریں۔ آپ کسی چیز کو خریدنے پر اپنی کمائی کا کتنے فیصد خرچ کر رہے ہیں؟ 25 ہزار روپے تنخواہ پر 25 ہزار روپے کا ہی سمارٹ فون خریدنا ہرگز دانشمندی نہیں جبکہ ہر گزرتے مہینے کے ساتھ اس فون کی قیمت میں بھی کمی آتی رہے گی اور ایک ڈیڑھ سال بعد وہ کسی کو فروخت کرنے کے قابل بھی نہیں ہو گا۔ اس لیے جب بھی کوئی چیز پسند آئے تو خود سے یہ سوال کریں کہ کیا یہ چیز ابھی لینا ضروری ہے۔
امیر دوستوں سے دور رہیں
ان دوستوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا کم کریں جو امیر کبیر ہیں اور وہ سب کچھ ان کا معمول ہے جو آپ کو پسند نہیں یا آپ کی دسترس سے باہر ہے۔ ایسی صحبت آپ کی جیب پر بہت بھاری پڑ سکتی ہے کیونکہ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے دوستوں پر اخراجات کرنے ہوں گے اور یوں آپ ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب تر ہوتے جائیں گے۔ خود کو دوستوں کے برابر ظاہر کرنے کے لیے آپ اپنے ملبوسات اور دیگر چیزوں پر بھی خرچ کریں، جو آپ کے لیے اضافی بوجھ ہو گا۔
اخراجات پر نظر
اپنے اخراجات پر کڑی نظر رکھیں، کہاں، کب، کیسے اور کتنا خرچ کیا گیا اور آگے کتنے اخراجات باقی ہیں۔ اپنے اہم اخراجات کو آٹو میٹک کر دیں جیسا کہ مہینے کا کرایہ، گاڑی کی اقساط یا دیگر چیزیں اپنے بینک اکاؤنٹ سے بذریعہ آن لائن مخصوص تاریخ لگا دیں۔ اس سے آپ اہم اخراجات سے صرف نظر نہیں کر سکیں گے۔ اس کے لیے آپ ہر مہینے بجٹ بھی بنائیں اور آمدنی و اخراجات کا گوشوارہ مرتب کریں۔