پشاور: عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ انتخابات صاف و شفاف نہیں ہوں گے۔
صوبائی دارالحکومت میں این اے پی کارکنان کی نمازِ جنازہ کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اسفند یار ولی خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اے این پی سربراہ نے کہا کہ ان کی جماعت آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی اور ان میں کامیابی بھی حاصل کرے گی۔
عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ پر ہونے والے حملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی یہ سب کررہا ہے کرتا رہے ہم الیکشن لڑیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ 3 روزہ سوگ کے بعد معمول کی انتخابی مہم شروع ہوگی اور بغیر کسی پتھراؤ، جلاؤ گھیراؤ کے پُر امن طریقے سے جاری رہے گی۔
اسفند یار ولی خان نے کانر میٹنگ میں ہونے والے بم دھماکے سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندان سے ہمدردی کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ اپنے دکھ کو بیان کروں، شہید ہارون بلور مجھے بیٹوں کی طرح عزیز تھا‘۔
اسفند یار ولی خان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ملک کے لئے اچھی بات نہیں ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں اے این پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہر داڑھی والے کو طالبان نہیں کہا جاسکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں طالبان سے کہتا ہوں کہ اگر وہ سچے پختون ہیں تو چھپ کر اور پیچھے سے وار نہ کریں، کھل کر سامنے آئیں اور مقابلہ کریں ہم تیار ہیں‘۔
یاد رہے کہ 10 جولائی کو پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران بم دھماکے سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور سابق رہنما بشیر احمد بلور کے صاحبزادے ہارون بلور سمیت 20 افراد جاں بحق اور 48 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اس حوالے سے اے آئی جی شفقت ملک کا کہنا تھا کہ ‘ابتدائی تفتیش کے مطابق حملہ خودکش تھا اور اس کا نشانہ ہارون بلور تھے’۔
بعدِ ازاں ہارون بلور پر ہونے والے خودکش حملے کا مقدمہ ایس ایچ او یکہ توت کی مدعیت میں نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف درج کرلیا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ نیشنل کاؤنٹرٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے ایک انتباہ جاری کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ عام انتخابات کے دوران ملک کی سیاسی قیادت کو دہشت گردی کے خطرات ہیں۔
نیکٹا حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خطرات کے حوالے سے 12 رپورٹس ملی ہیں جن میں سے 6 رپورٹس مخصوص شخصیات پر ہیں۔