تحریر : محمد قاسم حمدان
1988ء کو اردو کے نفاذ کا سال قراردیاگیاتھامگر27سال گزرنے کے باوجود بھی اردو کو اس کاحق نہیں دیاجاسکا۔ اردو کامقدمہ ایک بارپھرعدالت میں ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردوکے نفاذ کے لیے جوکوشش شروع کی ہے ‘اللہ کرے اس بارکشتی منجدھار سے نکل کرکنارے لگ جائے۔پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر بناہے۔ 1973ء کے دستور کے آرٹیکل 251 کی شق نمبر1 کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دستور کے یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری ودیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔شق نمبر2 کے مطابق شق نمبر1 کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کی جائے گی جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔ شق نمبر3 کے مطابق قومی زبان کی حیثیت متاثرکیے بغیرکوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم’ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی۔قوموں کے عروج وزوال میں زبان کا کردار ریڑ ھ کی ہڈی جیساہوتاہے۔مادری زبان فطری زبان ہوتی ہے۔ انسان کی صلاحیتوں کو نکھارکر اسے بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ اردو بحیثیت زبان آج تک یتیمی کا کرب سہہ رہی ہے۔ البتہ وہ اردو جسے ترکی زبان میں لشکر کہتے ہیں اس اردو نے پاکستان میں خوب عروج پایااور تیس سال تک پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک رہی۔ پاکستان کے عوام پریہ اردو تیس سال تک ڈنڈے کے زورپرسوار رہی۔
مگر اردو بحیثیت زبان یہاں سرکاری حیثیت سے اپناآپ کبھی نہ منواسکی۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ لارڈمیکالے کا دیانظام تعلیم ہمارے اشرافیہ کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔انگریزی کو ہم نے غلامی سے اپنارشتہ استوار رکھنے کاایک موثر ذریعہ سمجھ رکھاہے۔ قدرت اللہ شہاب نے بڑی دلچسپ حقیقت شہاب نامہ میں لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں دورہ انڈونیشیاکے دوران وہ بھی ایک عوامی جلسہ میں شریک ہوئے جس سے صدر سوئیکارنوخطاب کررہے تھے۔اپنی زبان میں تقریر کرتے ہوئے متعددباروہ ولندیزی زبان میں بھی گرجتے۔شہاب نے مترجم سے وجہ پوچھی تواس نے بتایا غصے میں آکر صدر سوئیکارنوجب کسی کو ڈانٹتے ہیں یا گالی دیتے ہیں تو ایسے موقع پر بے اختیار ڈچ زبان استعمال کرتے ہیں۔اس کی وجہ مترجم نے یہ بتائی کہ غلامی کے دور میں انڈونیشی قوم نے ڈچ زبان میں گالی گلوچ اور ڈانٹ ڈپٹ سنتے سنتے کئی صدیاں گزاری ہیں۔ اسی لیے ڈانٹ اور دشنام کے لیے یہ زبان ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔اگر انصاف کی بات کریں توانگریزی کے ساتھ ہمارا بھی کچھ اسی طرح کامعاملہ ہے۔
عدالت نے بھی اپنے ریمارکس میں کہاہے کہ جب کسی ان پڑھ شخص کو انگریزی زبان میں کوئی عدالتی نوٹس جاتاہے تووکیل حضرات اس سے محض اس کاترجمہ کرنے پر ہی 5سو سے 5ہزار روپے لے جاتے ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ شعراء کاکلام فارسی ‘پنجابی اور اردو میں ہے۔انگریزی میں نہیں۔ہرقوم نے اپنے کلچر اور زبان کومحفوظ کیاہے۔دنیاکے 249 ممالک میں سے189ممالک کی سرکاری زبان ان کی قومی زبان ہے جو قومیں اپنی قومی زبان کو اختیار نہیں کرتیں وہ کبھی اپنے قومی ورثہ کی محافظت نہیں کرپاتی۔مسلمانوں کے دورحکومت میں بنگال کی زبان کارسم الخط عربی تھااوروہ اردو سے بہت زیادہ قریب تھیلیکن جب انگریزدور میں ہندؤوں کو قوت ملی تو انہوں نے سازش کرکے بنگال میں دیوناگری رسم الخط مسلط کردیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اس چیزنے بنیادی کردار اداکیا۔تمام اخبارات لٹریچرکولکتہ سے چھپ کر آتا انہوں نے اقبال کی بجائے ٹائیگور کو قومی شاعری کا درجہ دیا۔ہندی کو ہندوستان کی قومی زبان بنانے اوراردو کوختم کرنے کے لیے بھی یہی سازش کی گئی۔آج ہندوستان کی فلموں اورعام بول چال کی زبان اردو توہے لیکن ولی دکنی سے لے کر فیض احمدفیض تک اور ڈپٹی نذیراحمد سے قرة العین حیدرتک نظم ونثرمیں جو ادب تخلیق ہوا اسے رسم الخط کے سبب پڑھنا ناممکن بن گیا ہے۔ ترکی کو دیکھ لیں،جب مصطفی کمال پاشانے عربی رسم الخط کی بجائے رومن رسم الخط کو جاری کیا تو ترکی ادب کاقدیم ورثہ لائبریریوں میں دفن ہوگیا کیونکہ اسے پڑھنے کی صلاحیت ان سے چھین لی گئی۔
1938ء میں قائداعظم نے دلی میںٍ کہاتھا ہندی کا جبری نفاذ اسلامی تمدن اور اردو زبان کے لیے پیغام مرگ ہے۔ اگر ہندی کا نفاذ پیغام مرگ ہے توانگریزی بھی ہماری ترقی کی راہ میں دیوار برلن ہے۔جسے اب قوم کے مفاد میں گرادیناضروری ٹھہرگیاہے۔ ہم 67سال سے قوم کو انگریزی پڑھارہے ہیں لیکن جب بھی پنجاب یونیورسٹی کابی اے کا رزلٹ آتاہے سرشرم سے جھک جاتا ہے۔60فیصد طلبا انگریزی میں فیل ہوتے ہیں۔اکثرطلباء دل برداشتہ ہو کر تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اوریوں ان کا مستقبل تاریکیوں میں ضائع ہوجاتاہے۔قائداعظم نے 1939ء میں چندربوس کے جواب میں کہا تھا ہم نے اس ہندوستان میں ہندؤوں کی خاطر عربی چھوڑی، ترکی چھوڑی اور وہ زبان اختیار کی جو اس ملک میں بنی اور جوکہیں اورنہیں بولی جاتی۔ پہلی دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان کے واحد ہندو ممبردھرمیندرناتھ دت نے فروری 1948ء میں زبان کا مسئلہ چھیڑ کر جب بھس میں چنگاری پھینکی تو قائدنے مارچ1948ء میں پور ی دنیا پر واضح کردیاکہ پاکستان کی زبان اردو ہوگی۔پاکستان میں جب کوئی معاملہ آئین سے ماوراء وقوع پذیر ہوتا ہے ۔آئین سے حکمران کھیلتے ہیں،ترامیم اور اکھاڑپچھاڑ سے اس کاحلیہ بگاڑتے ہیں تو پورے ملک میں شورمچ جاتاہے کہ آئین مقدس دستاویزہے، آئین کی پامالی کسی صورت برداشت نہیں ہوگی۔وکلاء آئین کے محافظ بن کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں
لیکن آئین میں یہ لکھا انہیں نظر کیوں نہیں آتا کہ 1973ء کے ٹھیک پندرہ سال بعد پاکستان میں اردو کا نفاذ ہوگا۔ کیایہاں آئین کی پامالی نہیں ہورہی، کیاآئین کا تقدس یہاں مجروح نہیں ہورہا۔کیا آئین کی روح یہاں زخمی نہیں ہورہی۔ ضیاء الحق شہید کے دور میں اردو کے نفاذ کے لیے سنجیدہ کوشش ہوئی۔ اس دور میں فوج کو بھی اردو نافذ کرنے کاحکم دیا۔چنانچہ 800 صفحات پرمشتمل ایک سٹینڈرڈ انگلش اردو ملٹری ڈکشنری مرتب ہوکر شائع ہوئی اور تمام فوجی یونٹوں میں تقسیم بھی کی گئی لیکن ضیاء الحق کی شہادت کے بعد آنے والے آرمی چیف نے 1973ء کے آئین کی خلاف ورزی میں سویلین حکمرانوں کا پورا پورا ساتھ دیا۔اردو کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں جاذبیت بہت زیادہ ہے۔ دوسری زبانوں کے الفاظ اس خوبصورتی سے اس میں جذب ہوجاتے ہیں۔ایسالگتاہے کہ یہ لفظ اصل میں اردو زبان کا تھا جسے دوسروں نے مستعارلیا۔اسی خوبی کی بناپر اردو کو دنیا میں قبولیت عامہ مل رہی ہے۔ داغ نے اسے صرف ہندوستان کی زبان کہا اگراب وہ زندہ ہوتے اور اردو کا فروغ دیکھتے تو یوں کہتے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے میں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
1973ء سے لے کر 2012ء تک چھ حکومتیں آئی ہیں،کسی نے بھی اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے مخلصانہ کوشش ہی نہیں کی۔2005ء میں سیکرٹری کیبنٹ نے اردو کے نامور ادیبوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ۔کمیٹی نے اردو زبان کے بطور سرکاری زبان نفاذ اور ترویج و اشاعت کے حوالے سے رپورٹ اس وقت کے وزیر اعظم کو بھجوائی۔انہوں نے وفاقی وزراء اور ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین عطاء الرحمن سمیت سات افراد پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی لیکن ان کمیٹیوں کی سفارشات اور رپورٹس کے باوجود اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ مل سکا۔سیدیوسف رضاگیلانی نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے تین تین ارکان پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی یہاں بھی بات کاغذی کارروائی تک محدود رہی۔ سب سے زیادہ جو سنجیدہ کوشش ہوئی وہ 1986ء میں ہوئی۔ کیبنٹ ڈویژن نے سرکاری سطح پر اردو کے نفاذ کے لیے نہ صرف ہدایات دیں بلکہ چھ ہزار سرکاری افسروں اورساڑھے تین ہزار سٹینوگرافروں اور دیگر ملازمین کو اردو زبان کے کورس کروائے لیکن 14 اگست 1988ء کو آئینی مہلت کے خاتمے کے بعدلاء ڈویژن کی طرف سے اٹارجنی جنرل کی ایڈوائس کے بعد اردو زبان کے نفاذ کامسئلہ سردخانے میں ایسا جاپڑا کہ پھر دوبارہ اٹھ ہی نہ سکا۔
بلاشبہ اس وقت چین،جاپان،امریکہ سمیت دنیاکا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے نہ ہوں۔ دنیا کی بے شمار یونیورسٹیوں میں اردو ڈیپارٹمنٹ قائم ہوچکے ہیں۔وہاں اردو ادب پر کام ہورہاہے۔کتنے ہی ملک ہیںجہاں سے اردو ریڈیو سروس باقاعدگی سے جاری ہے۔ترکوں کے ہاں یہ مشہور ہے کہ ترکی اور پاکستان ملک دو لیکن جسم ایک ہیں ۔ ترکی سے ترک ریڈیواینڈ ٹی وی(TRT) اردو سروس نشرکرتاہے۔ ترکی کی انقرہ یونیورسٹی میں اردوڈیپارٹمنٹ موجودہے بلکہ اس یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ پروفیسراشرف صاحب اورپروفیسر جلال نے اردو ،ترک،لغت بڑی محنت سے تیارکی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر فرقان حمید صدر اردو سوسائٹی اس وقت حقیقی معنوں میں سفیر پاکستان کا کردار ادا کررہے ہیں۔فروغ اردو کے حوالے سے ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ڈاکٹرصاحب نے بھی اردو ترک لغت تیار کی ہے ۔اردو کے نفاذ کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اردو میں جدید تکنیکی ،سائنسی اور دیگر انسانی علوم پیش کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔جدید اصطلاحات کے لیے اردو میں مناسب الفاظ نہیں ہیں۔یہ اعتراض محض عذر لنگ ہے۔
بودے پن، کم علمی،بدنیتی اور احساس محرومی پرمبنی ہے۔ پانی میں ابھی اترے نہیں اورگہرائی کے خوف سے ڈوبنے کاشور کنارے پربیٹھ کر مچایاجارہاہے۔ مقتدرہ قومی زبان نے اس حوالے سے بہت زیادہ کام کررکھا ہے۔ اصطلاحات اور متبادل تلاش کیے جاچکے ہیں جو تھوڑی بہت کمی ہے وہ وقت کے ساتھ مکمل ہوتی جائے گی۔ حالات وواقعات سے جوں جوں سابقہ ہوگا اصطلاحات و الفاظ بھی ایجاد ہوتے جائیں گے۔پاکستان میں ایسے ہی اعتراضات کرنے والوں نے انگریزی چینل شروع کیے لیکن وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ انہیں دیکھ کر جو اڑان بھر رہے تھے انہوں نے بھی مایوسی سے خاموشی اختیار کرلی۔اس وقت ریاست کو بچانے اور ملک کو مضبوط اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کی اپنی زبان کو سرکاری وقومی زبان بنایاجائے۔
سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کے حوالے سے ترکی کو رول ماڈل بنالیں۔جہاں ترجیح تو اپنی زبان کو دی گئی ہے لیکن کئی ایک جامعات میں طلبا کی آسانی کے لیے انگریزی زبان بھی ذریعہ تعلیم ہے۔میاں نوازشریف صاحب اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں ایٹمی دھماکے کروائے،چین پاک تجارتی معاہدات کا کریڈٹ بھی آپ کے حصے میں آیا،اب اردو کو اس کی لازمی حیثیت کا اعزاز بھی آپ اپنے نام کرلیں …قوم آپ کی ممنون و مشکور رہے گی۔
تحریر : محمد قاسم حمدان