تحریر : ایم پی خان
حکومت کی غلط پالیسیوں، میڈیاکی جانبداری اوراہل علم کے غیردانشمندانہ فیصلوں کی وجہ سے تقریباً ستر سال تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاست کے تمام امور، انتظامی معاملات، دفتری خط کتابت اور نظامِ تعلیم جیسی اہم ذمہ داریاں ایک غیر اور اجنبی زبان میں سرانجام دینے کے احمقانہ تجربات ہوتے رہیں۔ نتیجتاً ہم ناکامی کے سوا کچھ نہ پائے۔ ہم نسل درنسل علم وادب، فہم وفراست اور دانش سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے ارباب اختیارایڑی چوٹی کازورلگاکراتنی انگریزی سیکھ لیتے ہیںکہ بیرون ملک اجلاسوں اورپریس کانفرنسوں میں لکھی ہوئی چٹھی سے اپنامدعابیان کرلیتے ہیں۔حالانکہ اپنے جذبات، احساسات اورمسائل بیان کرنے سے یکسر قاصررہتے ہیں۔دفاترکایہ حال ہے کہ پوراپورادن ایک دستاویز کو مرتب کرنے میں پوری مشینری لگی رہتی ہے، پھربھی کوئی فصیح اوربلیغ تحریرمرتب نہیں کرسکتے۔ایک معمولی چٹھی لکھنے کے لئے انٹرنیٹ اورلغات ڈھونڈڈھونڈ کر اپنی پوری توانائی صرف کرلیتے ہیں، جس سے وقت کابے تحاشاضیا ع ہوتاہے۔جہاں تک انگریزی بولنے کاتعلق ہے تو بقول مرزامحمودسرحدی
ہم غریبو ں سے آپ کیوں صاحب
مفت کے جھگڑے مول لیتے ہیں
آپ کی طرح سے انگریزی
خانسا مے بھی بول لیتے ہیں۔
نظام تعلیم کایہ حال ہے کہ پاکستانی قوم پر زبردستی ایک ایسی زبان مسلط کی گئی ہے ، جس میں تعلیم کاحصول محض ایک خواب ہوتاہے۔سائنس ، طب ،قانون اوردیگرعلوم برائے نام انگریزی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں جبکہ انگریزی زبان پر پڑھانے والے کو کماحقہ دسترس ہوتاہے نہ پڑھے والوں کو۔اس احمقانہ فیصلے کاسب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں کاہوتاہے، جوتعلیم کے نام پردکانداری کرتے ہیں۔ایک خاص طبقہ اپنے ہی مفادات کے لئے قائداعظم کے فرمان،آئین پاکستان ، سپریم کورٹ کے فیصلہ اورپھر بیس کروڑپاکستانی عوام کے مفادات کو پس پشت ڈال کر زبردستی اردوزبان کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں۔
24جولائی 2016کو پاکستان قومی زبان تحریک کے زیراہتمام کُل پاکستان نفاذ اردوکانفرنس میں جہاں ایک طرف اردوزبان کے نفاذ کے لئے پاکستان بھرسے آئے ہوئے دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیااورحکومت سے فوری طورپر پاکستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اردوزبان کے نفاذ کاپرزورمطالبہ کیا،وہاں دوسری طرف فخرِ پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان ، جن کا تحریک کے قائدین اورشرکائے اجلاس نے اپناہیروسمجھتے ہوئے، انتہائی محبت اورپرجوش اندازمیں استقبال کیا۔ڈاکٹرصاحب نے اپنی سائنسی اورسیاسی بصیرت کی روشنی میں دبے الفاظ میں انگریزی زبان کی وکالت کی اورکہاکہ اگروہ انگریزی میں نہ پڑھتے توشاید پاکستان کے لئے جوہری بم نہ بنا سکتا۔
انہوں نے مزید پاکستانی نظام تعلیم کی کمزوریوں کاروناروتے ہوئے کہاکہ دنیاکی پانچ سو یونیورسٹیوں میںشاید پاکستان کی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہ ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وزیراعظم کے مشیرخاص جناب عرفان صدیقی صاحب نے بھی اپنے بیان میں پاکستان قومی زبان تحریک کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اردوزبان کے نفاذ کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کاعزم کیااورحکومت کی طرف سے بہت جلد پاکستان میں سرکاری اوردفتری سطح پر اورملک میں ہرسطح پر اردوکو بطورذریعہ تعلیم رائج کرنے کاوعدہ کیا۔ اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے اچانک موصوف کاحافظہ ان کاساتھ چھوڑگیا اورشارٹ یوٹرن لیتے ہوئے انگریزی زبان کی ایسی وکالت شروع کی کہ گویااِدھراردوزبان کانفاذ ہوا اوراُدھر پوری پاکستان قوم پتھر کے زمانے میں چلی گئی۔
مذکورین کے ان متضادبیانات سے کچھ دیرکے لئے کانفرنس ہال میں افسردگی اورمایوسی کی سی کیفیت پیداہوگئی ۔ایسے میں جب محترمہ فاطمہ حسن صاحبہ سٹیج پرآئی اوراپنی علمی ، ادبی ، تاریخی اورمعاشرتی بصیرت کی روشنی میں اردوزبان کو ہرسطح پر نافذ کرنے کے لئے ایسی مدلل تقریرکی کہ ایک دفعہ پھرشرکائے کانفرنس اورتحریک کے قائدوں کے چہروں پر امید ومسرت کی لہردوڑگئی ۔انہوں نے اردوزبان کے نفاذ، پاکستان قوم کی ترقی اورانگریزی زبان کی حیثیت کے بارے میں انتہائی معتدل رویہ اپناتے ہوئے پہلے اردوزبان کی مختصرتاریخ بیان کی اوراسکے بعدصاف الفاظ میں کہاکہ اردوزبان کے نفاذ کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ انگریزی زبان کومکمل طورپربے دخل کردیاجائے بلکہ انگریزی زبان کو ثانوی درجہ دیکر ، صرف زبان سیکھنے کی حد تک تعلیمی اداروں میں پڑھائی جائے نہ کہ اپنی زندگی ، رہن سہن ، طورطریقوںاوراپنی تہذیب کو انگریزوں کے زیر اثر لائے۔
ایسے حالات میں مزیدسونے بہ سہاگہ تب ہواکہ پروفیسرسلیم ہاشمی صاحب نے انتہائی سنجیدہ اندازمیں اپنے مدہم ، حلیم اورباوقارلہجے میں دنیاکی پانچ سویونیورسٹیوں میں پاکستان کی کسی یونیورسٹی کے نہ ہونے کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ چونکہ سترسال تک ہم پاکستان میں انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر اپنامعیارتعلیم بلند کرنے کے ناکام تجربات کرتے رہیں ۔ اب ذرا اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر کچھ عرصہ بعد دیکھ لیتے ہیں کہ دنیاکی پانچ یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کتنی یونیورسٹیاں کاشمارہوتاہے۔اردوزبان کے حق میں جنا ب عبداللہ گل صاحب نے انتہائی مدلل بیان کرکے محبان اردوکی ہرقسم کی حوصلہ افزائی کی۔
اردوزبان کے لئے قومی زبان تحریک کی زیرنگرانی جتنے بھی تقاریب منعقدہوئے ہیں،مجھے ان میں تحریک کے قائدین کی طرف سے خصوصی طورپر مدعوکیاگیاہے لیکن چونکہ وقت کی کمی فاصلو ں کی دوری کاسبب بنتا رہا۔ اس دفعہ اسلام آبادکے ایوان قائد ، نظریہ پاکستان کونسل میں منعقدہ اس کانفرنس میں مجھے ذاتی طورپر اپنے دوستوں سید اسد کاکا خیل اورمیاں تنویرحسین کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کاموقع ملا ۔ تحریک کے قائدین ، جن میں عزیزظفرآزادصاحب، پروفیسرسلیم ہاشمی ، محترمہ فاطمہ قمرصاحبہ ، حامدانوارصاحب اورمزمل عباس صائم صاحب کے ساتھ میری ذاتی شناسائی تھی، ملاقات کاموقع ملا اورانکے ساتھ خصوصی نشست ہوئی۔محبان اردوکاجذبہ دیکھ کر مجھے یقین ہواہے کہ ان شاء اللہ اب وہ دن دورنہیں جب پاکستان میں ہرسطح پراردوزبان سرکاری طور پر نافذ ہو گی۔