بھارت (احمد نثار) جامعہ سری شنکراچاریہ برائے سنسکرت، علاقائی مرکز، کوئی لانڈی،کیرلا کے شعبہ اردو میں دو روزہ سیمینار۔ اردو ادب میں علم العروض اور علم البیان پر دو روزہ قومی سیمینار منعقد کیا گیا تھا۔ یہ قومی سیمینار٢٨ اور ٢٩ مارچ ٢٠١٥ کو شعبہ اردو میں انعقاد کیا گیا اور اس اجلاس کے کوآرڈینیٹر جناب ڈاکٹر عطاء اللہ خان کاک سنجری کی قیادت میں روبعمل آیا۔ اس سیمینار میں ریاست آندھرا پردیش، مہاراشٹر، تمل ناڈو،کرناٹک اور کیرلا کے افراد شریک رہے۔ اس سیمینار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت علاقائی مرکز کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر وی۔ین۔اُنّی نے کی۔ مہمانانِ خصوصی جناب ڈاکٹر مظفر علی شہ میری، صدر شعبہ اردو ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد اور جناب نثار احمد سید، فری لانس ویزیٹنگ فیکلٹی، پونہ، مہاراشٹر رہے۔ جناب عطاء اللہ خان نے سبھی کا تعارف کروایا اور استقبال کیا۔ اس اجلاس کی افتتاح جناب نثار احمد سید نے کی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں جامعہ سری شنکراچاریہ کے اردو شعبہ کی تعریف کی اور ملک کے سماجی ڈھانچے میں زبانوں کی ہم آہنگی کی طرف توجہ دلائی۔اور یہ بھی کہا کہ ویدک اور قرانی ادب کو پڑھیں اور سمجھیں اور عالم انسانیت کے لئے کام کریں۔
پھر اس اجلاس کی شروعات دعا سے ہوئی۔ یونیورسٹی کے طلباء نے لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری پڑھی۔ غنائیت سے لبریز اس دعا سے محفل میں ایک نئی روحانی تازگی پیدا ہوگئی۔ ڈاکٹر وی۔ین۔ اُنّی نے اپنے صدارتی خطاب میں زبان کی خوبصورتی اورسنسکرت ادب کے تعلق سے معلومات فراہم کئے۔ ڈاکٹر مظفر علی شہ میری نے اپنے خطاب میں اردو کی ثقافتی ورثہ اور اس کی خوبصورتی پر روشنی ڈالی۔ صدر شعبہ اردو جناب ڈاکٹر نکولن صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کیرلا کی وسیع النظری کی وجہ ہی سے کیرلا میں اردو پنپ رہی ہے۔ریاست کیرلا میں اردو کے فروغ میں سب سے بڑا کردار حکومت کیرلا کا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ بھارت کی مشترکہ تہذیب ہی بھارت کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ سیمینار کے موضوعات پر ایک مختلف ہی انداز میں ریسورس پرسنز نے اپنی مہارتوں کے جوہر بکھیرے۔ڈاکٹر مظفر علی شہ میری نے اردو ادب میں علم البیان اور علم الکلام پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی اور حاضرین نے بھی اس کا بھرپور استعفادہ کیا۔ ڈاکٹر مظفر علی صاحب کا طریقہ انٹیراکٹیو طریقہ تھا جو کامیاب رہا۔ دوسرا موضوع اردو ادب میں علم العروض کو جناب نثار احمد سید نے پیش کیا۔ موصوف نے علم العروض یا علم الشعر کو بڑے ہی عمدہ اور نفیس انداز میں ایک جدید طریقے سے پیش کیا جس کو محفل نے اعتراف کیا کہ اردو ادب میں علم العروض کو سمجھنے کے لئے یہ طریقہ بے حد مفید اور آسان ہے۔ اس طریقے میں موصوف نے غنائیت، شعر اور افاعیل (ارکان) کو اساس بناتے ہوئے علم العروض کو پیش کیا۔
ڈاکٹر مظفر علی شہمیری، ڈاکٹر نکولن، اور ڈاکٹر عطاء اللہ خان سنجری نے کہا کہ نثار احمد سید صاحب علم العروض کو سیکھنے اور سکھانے میں ایک جدید طریقے کے موجد ہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ اس جدید طریقہ کو پہلی بار تعارف کروانے کا سہرہ شعبہ اردو جامعہ سری شنکراچاریہ برائے سنسکرت کے علاقائی مرکز کے سر جاتا ہے۔ ڈاکٹر سعید الدین، اسلامیہ کالج وانمباڑی تمل ناڈو، ڈاکٹر شریف، ڈاکٹر حیات باشاہ، علاقائی کیمپس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ملاپورم، ڈاکٹر ضیاء الرحمن مدنی شانتاپورم کیرلا، ڈاکٹر سلیم فروک کالج کالیکٹ، محترمہ شکیلہ اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج ملاپورم نے اپنے مقالے پیش کئے۔ اجلاس کے دوسرے دن کے دوسرے سیشن میں جناب نثار احمد نے اردو ویکیپیڈیا کا بھی تعارف کروایا اور اس تعلق سے ایک ورک شاپ کا بھی اہتمام کیا۔ اردو احباب کو اردو ویکیپیڈیا کیا ہے، اس کے ساتھی منصوبے کیا ہیں اور اردو ویکی پیڈیا میں مضامین کیسے لکھے جاسکتے ہیں اور تدوینات کیسے کئے جاسکتے ہیں، تفصیل سے بتایا۔ چونکہ ویکی پیڈیا دنیا بھر میں مشہور دائرةالمعارف ہے حاضرین نے بڑی ہی دلچسپی کے ساتھ اس کے تعلق سے معلومات حاصل کیں۔ اور یہ عہد کیا کہ اردو زبان کے تحفظ کے لئے اردو ویکی پیڈیا پر ضرورسے کام کریں گے۔
ڈاکٹر غفار صاحب نے ہدیہ تشکر پیش کیا اور کہا کہ یہ سیمینار اتنے خوبصورت انداز میںچلا کہ حاضرین کو کافی استعفادہ رہا، اور یہ بھی کہا کہ میں نے کئی سیمینار دیکھے جس میں صرف مقالے پڑھ کر لوگ اپنی جگہ لے لیتے ہیں، لیکن یہ مختلف سیمینار ہے جو کہ ایک ورک شاپ کی طرح رہا اور حاضرین کے لئے بے حد فائدہ بخش ثابت ہوا۔ریسورس پرسنز ڈاکٹر مظفر شہ میری اور نثار احمد سید صاحبان کا تہہ دہ سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ریسورس پرسنز نے اپنے مقالوں اور موضوعات کو پیش کرنے کے لئے مختلف اور نئے انداز اپنائے جوکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت محسوس ہو رہے ہیں۔ اس اجلاس کے کوآرڈینیٹرڈاکٹر عطاء اللہ خان سنجری کی قیادت میں یہ سیمینار بے حد کامیاب رہا۔