تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
انتظار حسین کے والد کا نام منظر علی تھا۔ دادا کا نام امجد علی اور والدہ کانام صغری بیگم تھا۔ انتظار حسین 7 دسمبر، 1923ء کو میرٹھ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے ۔والدین کو چار بیٹیوں کے بعد کسی بیٹے کا انتظار تھا، لہذان کا نام انتظار حسین رکھ دیا گیا ۔ان کے پڑوسی ہندو تھے ۔خود کہتے ہیں ”میں مندر اور مسجد کے درمیان پیدا ہونے والی نسل سے تعلق رکھتا ہوں” ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔بعد ازا ں8 سال کی عمر میں سکول داخل کروایا گیا ۔پوری کلاس میں صرف دو مسلمان طالب علم تھے ۔انتظار حسین نے 1942 ء میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ اور 1944 ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔ایم اے کی تکمیل کے دوران ہجرت سے قبل اپنی پہلی کتاب مکمل کرلی تھی، اس کتاب کا موضوع لسانیات تھا۔ وہ اس کتاب کے مسودے کے ساتھ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پاس گئے ۔ مولوی عبدالحق نے ریاض الحسن کو مسودہ دکھانے کا مشودہ دیاتھا۔
اس کتاب کے دو مضامین جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے رسالے ”جامعہ” میں شائع ہوئے تھے۔ایم اے کرنے کے ایک برس بعد پاکستان بن گیا۔انتظار حسین لاہور آئے ۔وہ ابتدا ء میں شاعر بننا چاہتے تھے ۔ن م راشد کی طرح نظمیں لکھیں ۔پھر شاعری چھوڑ کر افسانہ نگاری کی طرف آئے ۔افسانہ نگاری ،کہانی نویسی کی طرف آنے کی وجہ ان کا وسیع مطالعہ بنا تھا ۔
ایک روز لائبریری سے بیتال پچیسی لے کر پڑھی تو پڑھنے کا چسکا لگ گیا ۔پھر کیا تھا ۔ منٹو ، بیدی، عصمت، چیخوف، ٹالسٹائی، دوستووسکی، جیسے لکھاریوں کا مطالعہ کیا ۔ساتھ ہی کھتا سری ساگر کی آٹھ جلدیں ۔ مہاتما بدھ ۔مہا بھارت کی 18 جلدیں۔ الف لیلا مکمل ۔ صوفیاِ کرام کے تذکرے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ ان کا ذریعہ معاش پوری زندگی صحافت رہا ،انہوں نے جن اخبارات میںملازمت کی ان میںہفت روزہ ”نظام” بطور مدیر ۔روزنامہ ”امروز ” لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر( 1949 ء تا 1953 ئ)۔روزنامہ ‘آفاق” لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر او رکالم نگار( 1955 ء تا 1957 ئ)۔روزنامہ ”مشرق”لاہور بہ حیثیت کالم نگار( 1963 ء تا 1988 ئ)۔انتظار حسین کی طویل ترین وابستگی روزنامہ ”مشرق” سے رہی جس میں وہ مشہور و مقبول کالم ”لاہور نامہ” لکھتے رہے ،جو کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں ۔روزنامہ ”مشرق” سے 1988 ء میں علیحدہ ہونے کے بعد وہ لاہور کے روزنامہ Frontier Post میں 1989 ء سے 1994 ء تک ہفتہ وار کالم لکھتے رہے ۔اس کے بعد روزنامہ Dawnمیں ہفتہ وارکالم لکھنے شروع کیے ۔جب تک زندگی نے وفا کی ان کے کالم روزنامہ ایکسپریس ہفتے میں دو یا تین اور ڈیلی ڈان میں ہفتہ وار ایک کالم باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔
ان کا شمار اردو ادب کے بہترین افسانہ نگاروں اور کہانی نویسوں میں ہوتا تھا۔وہ اپنے الگ اسلوب کے سبب سب سے منفرد نظر آتے تھے ۔ان کی تحریروں کی سب سے خاص بات ماضی کی اقدار کھو جانے پر نوحہ خوانی ہے ۔ان کی تحریروں کا مطالعہ کر کے قاری حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے ۔انہوں نے 130سے زائد کہانیاں ۔چار بڑے ناول ۔ڈرامے اور تراجم کے علاوہ بے شمار کالم لکھے۔وہ ملک کے مایہ ناز ،معروف و مشہور کالم نویس، ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار تھے ۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلی کوچے ” 1953ء میں شائع ہوا تھا۔انتظار حسین فیض احمد فیض ، ابن انشا، احمد فراز ، منیر نیازی ، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، اے حمیدجیسے ادباء کے ہم عصر ادیب ہیں۔ انہیں بجا طور پر جدید اردوافسانہ نگاری کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ان کے درج ذیل ناولز ،کہانیوں ،کو عالمی شہرت ملی۔آگے سمندر ہے ۔بستی۔چاند گہن۔دن ۔ (ناولٹ)۔آخری آدمی۔ خالی پنجرہ۔ خیمے سے دور۔ شہر افسوس۔ کچھوے ۔کنکرے ۔گلی کوچے ۔چراغوں کا دھواں۔دلی تھا جس کا نام۔جل گرجے (داستان)۔ نظرئیے سے آگے (تنقید)۔ وغیرہ لیکن ان کی دو کہانیوںبستی اور آخری آدمی کو جو پذیرائی نصیب ہوئی، اس کی مثال دینا مشکل ہے، انہیں نہ صرف انتظار حسین کے بلکہ اْردو کے بھی شاہکار افسانے مانا جاتاہے ۔
انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے نوازا ۔وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 2013ء میں بین الاقوامی بکرز پرائز ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ حکومت فرانس نے ان کو ستمبر 2014ء میں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز عطا کیا تھا۔انتظار حسین نے بہت سے ممالک کی سیر و سیاحت کی مثلاََ ہندوستان ۔نیپال۔ ایران۔ ترکی۔ عرب امارات۔ جرمنی۔ناروے ۔ انگلستان۔ امریکا اور کینیڈا وغیرہ ۔وہ اپنے مشاہدات کو اپنی تحریروں کی زینت بناتے رہے۔
انتظار حسین کی شادی مارچ 1966 ء میں عالیہ بیگم سے لاہور میں ہوئی تھی۔ان کے لیے لڑکی کو پسند ان کی والدہ اور بڑی بہن نے کیا تھا۔
عالیہ بیگم ایک گھریلو خاتون تھیں۔ بیگم عالیہ انتظار حسین کا انتقال جنوری 2005 ء میں ہوگیا تھا۔
پاکستانی دنیائے ادب کے ہمارے دور کے آخری بڑے آدمی انتظار حسین 2 فروری 2016 ء کو 93سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے ۔ وہ کئی روز سے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور مرحوم کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے ـ آمین
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال