تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
1972 میں رئیس امروہوی کا یہ جملہ ” اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے” پورے پاکستان میں مقبول ہوا تھااور اس جملے پر ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے قدم ڈگمگانے لگ گئے تھے۔یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی ذاتی طور پراردو زبان سے واقفیت سطحی سی تھی۔وہ انگریزی زبان کے بڑے ماہر تھے یہ ہی وجہ تھی کہ اُن کا اردو زبان کا لب ولہجہ بہت کمزور تھا۔وہ اردو بولنے میں خاصی دشواری محسوس کرتے تھے۔اس کے باوجود میرے قائد نے پاکستان کی قومی زبان کے اردو ہونے پر زور دیا۔کیونکہ اُنہیں علم تھا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے دوسر سرے تک ہر مقام پر اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ہندوستان کے مسلمان چاہے جس زبان کے بولنے والے ہیں وہ اردو کو آسانی کے ساتھ بول اور سمجھ سکتے ہیں۔تحریک ِ پاکستان کے دوران صرف یہ زبان ہی مسلمانوں کو متحد رکھنے والی قوت (بائنڈنگ فورس )کی حیثیت رکھتی تھی۔
مسلمانوں کا ہر طبقہ وہ چاہے بنگالی ہوں، سندھی ہوِں،یوپی سی پی کے لوگ ہوں، یا پنجاب سے اُن کا تعلق ہوہر علاقے اور ہر خطے کے مسلمانوں کی اگر کوئی مشترکہ زبان تھی تو وہ اردو ہی تھی بلکہ کہا جاتا ہے کہ اردو زبان پنجاب میں ہی پلی بڑھی تھی۔گانگرس کا ہر طبقہ فکر اردو کا ازلی دشمن تھا یہ ہی وجہ تھی کہ 1867میں ہندوستان کے ہرہندوطبقے نے اردو سے تعصب کی بنا پر اس زبان کے خلاف یہ کہہ کر کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے اور اس کو ان کی مذہبی کتاب قرآنی الفاظ میں لکھا جاتا ہے، پورے ہندوستان کے ہندووں کو اردو کے خلاف ایجی ٹیشن کے لئے اکٹھا کرکے ہندو مسلم اتحاد کی راہ میں دراڑیں ڈال دیں ۔جس پر سر سید احمد خان جو اُس وقت ہندو مسلماتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے نے اپنے نقطہء نظر سے رجوع کر لیا اور دو قومی نظریئے کی نوید سناتے ہوئے واضح کر دیا کہ اب ہندو مسلماتحادکسی طرح بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
قائد اعظم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار اور جمہوری مزاج کے رہنما تھے۔جو اکثریت کے مزاج کے بھی بڑے شناسا تھے۔یہ ہی وجہ تھی کہ قیامِ پاکستان بعد جب وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلباء سے مخاطب ہوئے توہندو طلبا کے پریشر کی وجہ سے بعض مسلمان طلبا کی جانب سے پاکستان کی قومی زبان کا سوال اٹھایا گیا ۔تو قائدِ اعظم نے واضح الفاط میں یہاں اعلان فرما دیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف ” اردو ” ہوگی۔جس کے بعد اردو زبان کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اور زبانیں بند ہو گئیں۔اگر وہ چاہتے تو پاکستان کی قومی زبان انگریزی کو قرار دے سکتے تھے۔
کیونکہ انگریزی پر اُن کو اور اُن کے دیگر تحریکی ساتھیوں کو عبور بھی تھا اور اس کی مخالفت بھی کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی۔ مگرمیرے قئد خود غرضیوں کا کبھی بھی شکار نہیں رہے۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان کی اکثریت کا خیال کرتے ہوئے اور ماضی کے ہندو تعصب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کا شرف عطاء کیا اور اس طرح اردو زبان پاکستان کی قومی زبان بنا دی گئی۔تحریکِ پاکستان کی اول درجے کی قیادت کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد پاکستان کی یکجہتی کے مخالفین نے اردو کا اس حقیقی مقام دیا ہی نہیں!!!۔
پاکستان میں آئین سازی نہ ہونے اور پھر پہلے اور دوسر ے آئینوں پر فوجی قدغن کے نتیجے میں اردو زبان کی قومی اہمیت کو فراموش کئے جانے کی وجہ سے 1973 کے آئین میں نفاذاردو کی آئینی شق 251 (1)آجانے کے بعد کہا گیا کہ 15 سال کی طویل مدت میں پاکستان میں اردو زبان کا نفاذ کر دیا جائے گا۔مگرپرانی بیورو کریسی کو ہٹا کر بھٹو کی پیداکردہ نئی بیورو کریسی نے پاکستان کی قومی زبان کو اس کا جائز مقام حاصل نہیں ہونے دیا۔پھر آخرِکار 42 سالوں کے کے طویل انتظار کے بعدسپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 8 ،اگست 2015 کوایک جامع فیصلے کے ذریعے پاکستان میں ہر سطح پر سرکاری پیمانے پر فوری طور پر اردو کے نفاز کا حکم دیدیا اور یہ بھی کہا گیا کہ ہر سطح پر وزیر اعظم اور وزراء اردو میں نا صرف تقاریر کریں گے بلکہ دفاتر میں اردو کو فوری طور پر عملی شکل میںدفتری زبان کے طور پر استعمالشروع کر دیا جائے۔
مگر حکومت اور ہماری بیورو کریسی کی جس طرح احکامات کی تکمیل نہ کرنے کی روایت رہی ہے اس کے پیشِ نظرسپریم کورٹ کا یہ حکم بھی ہوا میںتحلیل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔سپریم کورٹ کے اردو کے نفاذ کے فیصلے کے اعلان کے ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو جناب نواز شریف کی حکومت اور بیورو کریسی نے ہوا میں اڑانے کا پہلا مظاہرہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، اسلام آباد کے اشتہارات مورخہ 23 ستمبر 2015 بروز اتوار کو کر دکھایا۔ان اشتہارات کی اردو اخبارات میں بھی انگریزی میں اشاعت سوالیہ نشان ہے۔
ان لوگوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی بھی حکومت اور بیورو کریسی کے سامنے حیثیت جتانے کی کوشش کی ہے۔گذشتہ بیالس سالوں سے حکومتوں اور بیورو کریسی کا اردو کے حوالے سے یہ ہی وطیرہ رہا ہے۔یہ ہی لوگ در اصل پاکستان کی قومی یکجہتی کے سب سے بڑے مخالفین اس وجہ سے رہے ہیں کہ اردو زبان کے قومی زبان بن جانے کے بعد ہر کام اردو میں ہوگا تو عوام ان کی خر مستیاں سمجھنے میں دیر نہیں کر پائیں گے اور ان کی خر مستیوں پر سوالات اٹھانے لگ جائیں گے ۔تو پھر ان کی سبکی ہو گی جس کے نتیجے میں سرکاری خزانے کی چوری چکاری ان کے لئے بہت مشکل ہو جائے گی۔
اردو زبان کے نفاذ کے ضمن میں ماضی میں مسلسل بہانے بازی کی جاتی رہی تھی اور انگریزی میڈیم کلچر کی ساتھ ہی ساتھ آبیاری بھی کی جاتی رہی تھی۔اگر اس ذہنیت کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو و جہ ا پ کے سامنے خود بخود آجائے گی۔اگر ملک میں اردو زبان کے نفاذ کے مطالبے پر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو غریب کا بچہ جو اردو میڈیم اسکولوں میں اپنی غربت اور خستہ حالی کی وجہ سے تعلیم حاصل کر رہا ہے۔وہ بھی اعلیٰ ایوانوں میں پہنچ جائے گا۔کیونکہ ذہانت میں وہ برگر خاندانوں کے بچوں سے کہیں زیادہ آگے ہوتا ہے۔ اور ہمارے یہاں علم و ذہانت کا معیار ایک مخصوص طبقے نے انگریزی زبان کو ٹہرایا ہوا ہے۔
ان لوگوں کا تصور یہ ہے کہ جسے انگریزی نہیں آتی وہ ان کے نزدیک ذہین ہو ہی نہیں سکتا ہے اور پھر غریب کا بچہ اعلیٰ ایوانوں میں کیونکر داخل ہونے دیا جائے؟؟؟انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پبلک سروس کمیشن اور سی ایس ایس کے امتحانات اگر اردو میں ہونا شروع ہوگئے تو بر گر بچے اپنی نا اہلی کی وجہ سے رُل جائیں گیاور غریب کا بچہ بازی لیجاتا رہے گا۔اگر وہ اعلیٰ ایونوں میں پہنچنے لگا تو ان کے نااہل بچے تو اعلیٰ ایونوں میں داخل ہونے سے رہ جائیں گے۔جو ان لوگوں کے لئے کسی قیمت پر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہ لوگ پاکستان کی قومی زبان کو ہر گز اس کا جائز مقام نہ دیں گے۔در اصل اردو کی مخالفت غریب کے بچے کی مخالفت ہے…..
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23hurshid@gmail.com