حال ہی میں عمران خان نے ایران اور چین کا دورہ کیا ہے۔ اِن دو ملکوں میں وزیراعظم پاکستان کو ہر لمحہ یہ احساس ہوا ہوگا کہ اُن دونوں ملکوں کے اعلیٰ ترین عہدے دار اپنی اپنی زبان بولتے ہیں۔ اتفاق سے یہ دونوں ملک ہمارے ہمسائے ہیں۔ ہمارے ہمسایوں نے بڑا کمال کیا ہے، ایران کے رہنے والے فارسی بولتے ہیں، خودداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ ہمارے علامہ اقبالؒ کا بہت احترام کرتے ہیں، دنیا نے ایران کو جھکانے کی بڑی کوشش کی، اُس پر جنگیں مسلط کی گئیں، پابندیاں لگائی گئیں مگر ایرانیوں نے ہمت نہ ہاری۔ تجارتی پابندیاں تو خیر اب بھی ایران پر لگی ہوئی ہیں مگر ایرانی پورے عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایرانیوں کی فارسی سے محبت اِس بات کا کھلا اظہار ہے کہ اُنہیں غلامی سے محبت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں، صاف ستھرا ایران خوبصورتی کی گواہی دے رہا ہے۔
ہمارا دوسرا ہمسایہ چین ہے، جس نے اپنی تیز رفتار ترقی سے دنیا کو حیران کر دیا بلکہ امریکہ سمیت کئی ملکوں کو تو پریشان بھی کر دیا۔ چینیوں نے طویل عرصے تک اپنے دروازے بیرونی دنیا کے لئے بند رکھے، اِس دوران چینیوں نے چین پر توجہ دی، آج چین نے پوری دنیا کو متوجہ کر رکھا ہے۔ دنیا چین کی طرف دیکھ رہی ہے۔ چینیوں کی حیران کن تیز رفتار ترقی نے کئی ملکوں کو پچھاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اب وہ چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں مگر چین اُن کے قابو نہیں آرہا۔ چینی بھی ایرانیوں کی طرح اپنی زبان بولتے ہیں، انگریزی پر عبور رکھنے والے ماؤزے تنگ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم اس لئے چینی بولتے ہیں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ چین گونگا نہیں ہے‘‘۔ میں نے ایک چینی سفارت کار سے پوچھا کہ چینی قیادت انگریزی کیوں نہیں بولتی، تقریریں تو ایک طرف آپ لوگ مذاکرات میں بھی انگریزی نہیں بولتے۔ سفارتکار ہنسا اور پھر بولا ’’ہماری قیادت انگریزی کو بخوبی جانتی ہے، خاص طور پر مذاکرات کرنے والے لوگ اور امور خارجہ سے منسلک افراد، مگر ہم مذاکرات میں انگریزی اس لئے نہیں بولتے کہ جب تک ترجمہ ہو رہا ہوتا ہے، ہم خوب سوچ سمجھ کر جواب تیار کر لیتے ہیں اور پھر ہمارے مترجم بھی کوئی نالائق نہیں ہوتے۔ اگر ہمارا وزیر سوچ بچار کے بعد بھی کوئی چیز بھول رہا ہو تو مترجم اسے چینی زبان میں یاد کروا دیتا ہے، چینی قوم نے یہ اصول اپنے عظیم قائد ماؤزے تنگ کے کہنے پر اپنایا ہوا ہے‘‘۔ چینی سفارت کار کی بات سن کر میں ہنسا تو اُس نے فوراً ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کیا کہ دو سال پہلے چین کے دورے کے موقع پر مجھے اتفاق ہوا تھا کہ آپ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی والے صوبے کی گورنر نے تقریب میں تو چینی زبان میں گفتگو کی مگر ہمارے ساتھ چائے کی میز پر وہی گورنر انگریزی بول رہی تھیں، اُن کی انگریزی کی روانی دیکھ کر حیرت بھی ہوئی لیکن اُن کا کہنا تھا کہ وہ سرکاری تقریبات میں ہمیشہ چینی زبان بولتی ہیں۔
خواتین و حضرات! چینیوں نے بڑی ترقی کی، اُنہوں نے وہ کچھ بنا کر دکھا دیا جو دنیا نہ بنا سکی، ایران بھی کوئی کم ترقی یافتہ نہیں، جنگوں اور پابندیوں کے باوجود ایران ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ اِن دونوں ملکوں نے اپنی زبانوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک ہم ہیں کہ آج بھی گلے میں غلامی کا طوق پہنا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے بلاول بھٹو زرداری کی انگریزی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے نوے فیصد لوگ انگریزی نہیں جانتے۔ بالکل درست کہا پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو اردو ہی میں تقریر کرنا چاہئے۔ عمران خان نے تو پچھلے دنوں ایچی سن کالج میں بھی اردو ہی میں تقریر کی تھی۔ تین چار برس پہلے بھی غیر ملکی مہمانوں کی موجودگی میں عمران خان نے اردو میں تقریر کی تھی، اُنہوں نے پہلے دو جملے انگریزی میں ادا کر کے غیر ملکی مہمانوں سے واضح طور پر کہا کہ ’’میں اپنی قومی زبان میں تقریر کروں گا‘‘۔ عمران خان تو لباس میں بھی غلامی کی زنجیریں توڑتا ہوا نظر آتا ہے مگر ہماری بدقسمتی اور ہے۔ ہم آزاد تو ہو گئے، ہمارا ملک بھی بن گیا مگر گورے انگریز جانے کے بعد ہماری سیاست اور نوکر شاہی پر کالے انگریز مسلط ہو گئے۔ اِن کالے انگریزوں نے ہماری قومی زبان کی ہر جگہ مخالفت کی، اِنہوں نے سرکاری دستاویزات کے لئے انگریزی کو اہم سمجھا، اِنہوں نے دفتری زبان انگریزی کو بنایا۔ بدقسمتی کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا۔ اِس ملک میں اعلیٰ سرکاری نوکریوں کے لئے تمام امتحانات قومی زبان میں نہیں بلکہ انگریزی میں ہوتے ہیں، مزید بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں انگریزی بولنے والوں کو ذہین ترین سمجھا جاتا ہے حالانکہ زبان تو اظہار کا ذریعہ ہے، ورنہ انگلستان کے سارے پاگل خانوں میں لوگ انگریزی بولتے ہیں۔ وہاں نالائق ترین افراد بھی انگریزی بولتے ہیں۔ چند برس پہلے سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ اردو کو دفتری زبان بنایا جائے، جواد ایس خواجہ کو ریٹائر ہوئے بھی عرصہ ہو گیا مگر اب تک اُن کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، عمل درآمد کیا ہوتا، ابھی تک تو عدالتوں کے فیصلے انگریزی میں آرہے ہیں۔ ہاں لاہور ہائیکورٹ نے پچھلے دنوں پہلا فیصلہ اردو میں سنایا ہے شاید باقی عدالتوں کو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ یاد آجائے۔ ہمارے ہاں چند دیسی لبرلز کہتے ہیں کہ دراصل جدید علوم انگریزی کے بغیر حاصل نہیں کئے جا سکتے، ذرا اُن سے پوچھئے کہ حضور! چین، جاپان، جرمنی سمیت بہت سے ملکوں نے انگریزی کے بغیر ترقی کی ہے، وہاں تو لسانی مجبوریاں آڑے نہیں آئیں۔
وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ سرکاری نوکریوں کے تمام مقابلوں میں اردو نافذ کریں، دفتری زبان اردو بنائیں، وزارت خارجہ کے افسران کو انگریزی کی ضرورت پڑتی ہے، باقی افسروں کو اُس کی کیا ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں، اپنی زبان بولیں، اپنا لباس اپنائیں، ہماری زبان اور لباس غلامی کے عکاس نہیں ہونے چاہئیں۔ اردو کے نامور شاعر جون ایلیا کا شعر پڑھئے اور اردو کے حسن سے لطف اٹھائیے کہ؎
آ تو جاؤں مگر تمہارے خط
اہلِ کوفہ سے ملتے جلتے ہیں