تحریر : فیصل اظفر علوی
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں اس ملک کی قومی زبان انتہائی اہمیت کی حامل ہے، تاریخ گواہ ہے کہ اقوام عالم نے ترقی کے زینے ہمیشہ اپنے اخلاقی، سماجی، معاشرتی اقدار اور قومی زبان کی رسی کو تھام کر طے کئے ہیں، بد قسمتی سے پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی اردو کو بطور سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے مختلف اعلانات تو ہوتے رہے لیکن اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی تمام حکومتیں اس سنجیدہ مسئلے کو نظر انداز کرتی آئی ہیں اور یہ جواز پیش کرتی رہی ہیں کہ اقوام عالم کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریزی زبان ناگزیر ہے جس کے بغیر آگے بڑھنا نا ممکن ہے، یہ بات بالکل معقول ہے کہ اقوام عالم کا مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے کیلئے انگریزی زبان سے واقفیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی قومی زبان کے سرے سے فراموش ہی کر دیں، اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذ کیلئے مختلف ادوار میں مختلف تحریکوں اور دانشوروں کے ذریعے اردو کا نفاذ سرکاری طور پر کروانے کیلئے مختلف کوششیں کی جات رہی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ کہ اب تک تقریباََ70 برس گزر جانے کے بعد بھی ہم اردو زبان کو اس کا حقیقی مقام نہیں دلوا سکے،
آئین پاکستان کی دفعہ 251 کے مطابق اردو پاکستان کی قومی ، سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان ہوگی اور حکومت 15 سال کے اندر اندر انگریزی کی جگہ اردو زبان کے نفاذ کیلئے عملی اقدامات کرے گی یعنی حکومت پاکستان 1988ء تک اردو کو بطور سرکاری و قومی زبان ملک بھر میں لاگو کرنے کی پابند تھی لیکن 15 سال کی بجائے حکومت اب تک آئین کی خلاف کرتی رہی ہے، پاکستان کاکچھ ضرورت سے زیادہ ”لبرل” طبقہ اردو کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا آیا ہے اور اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذ میں روڑے اٹکاتا رہا ہے۔ قارئین کرام! اردو زبان کے سرکاری طور پر نفاذ سے پاکستانی عوام کو بڑے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ، پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ٹیلنٹ کا اردو زبان کے نفاذ سے عملی طور پر بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، انگریزی زبان سے ناواقفیت رکھنے والے اور گھبرانے والے اردو زبان کی وجہ سے ترقی کی نئی منازل طے کر سکتے ہیں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو صرف انگریزی زبان کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس طرح سے ان میں موجود ٹیلنٹ ابھر کر سامنے نہیں آتا اور وہ معاشرے ، ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے محروم ہو جاتے ہیںجبکہ اردو زبان سے خواندگی کی شرح کو بڑھا کر ٹیلنٹ کو سامنے لایا جا سکتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے،
پاکستانی قوم جاننا چاہتی ہے کہ پاکستان کے قومی اداروں میں کیا ہو رہا ہے؟ عدالتوں کی کارروائی اردو زبان میں ہو، سرکاری محکموں کے ٹینڈر، خط و کتابت وغیرہ اردو میں ہونے سے عوام الناس میں شعور بیدار ہوگا اور وہ با آسانی سمجھ سکیں گے کہ ان کیلئے کیا کیا جا رہا ہے اور کیا نہیں؟ ۔ جہاں تک تعلیمی میدان میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انگریزی زبان میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم دنیا کی دوسری قوموں اور ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ایسے لوگوں کیلئے چین ایک واضح اور روشن مثال ہے، پاکستان کے دیرینہ دوست اور ابھرتی ہوئی سپر پاور چین کی عوامی اکثریت انگریزی زبان سے نا واقف ہے، جمہوریہ چین میں بنیادی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک چینی زبان میں ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ دنیاوی علوم سے صحیح معنوں میں مستفید ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شرح خواندگی چین میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، چینی قومی زبان سے محبت کا نمونہ چینی صدر اور وزیر اعظم کی دیگر ممالک کے دوروں کے موقع پر چینی زبان میں خطاب کرنے سے دیکھا جا سکتا ہے،
پاکستان میں ہونے والی سرکاری تقریبات، ترامیم، قوانین سازی، صدر و وزیر اعظم اور وزراء کی تقریریں انگریزیں زبان میں ہونے کی وجہ سے اکثریت یہ جان ہی نہیں پاتی کہ ان کے چنیدہ ”عوامی” رہنما کیا کہہ رہے ہیں، قومی زبان کو سرکاری طور پر رائج کرنے سے قوم میں شعور و آگہی بڑھنے کی رفتارتیز ترین ہو جائے گی، پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں مقیم شہری ایک زبان ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق و فرائض سے روشناس ہو سکتے ہیں۔ جدید دنیاوی علوم انگریزی زبان میں ہونے سے ہمارے ہاں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلباء و طالبات کی اکثریت مفہوم اور مقصدیت سمجھے بغیر رٹا لگا کر امتحان پاس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر امتحانات میں کامیابی کیلئے نقل کا سہارا لیتے ہیں، علم حاصل کرنا امتحان میں کامیابی یا ڈگری لے لینے کا نام ہی بلکہ Knowledge کے مظبوط اور وسیع ہونے کا نام ہے، انگریزی زبان میں موٹی موٹی کتابیں مفہوم سمجھانے کی بجائے پڑھنے والوں کو رٹا لگانے پر مجبور کر دیتی ہیں، میری ذاتی رائے کے مطابق پاکستان میں بنیادی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک پاکستان کی قومی زبان اردو میں ہونے چاہئے اور انگریزی زبان کو بطور لازمی مضمون پڑھایا جانا چاہئے
جس میں انگریزی زبان بولنا، پڑھنا اور لکھنا پہلی جماعت سے ہی سکھایا جائے، ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک اردو زبان میں ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان کو ہر شعبے میں سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین میسر آ جائیں گے، انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے چھپا ہوا ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آ جائے گا اور ملکی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے گا۔ رواں سال 2015 ئکے حالیہ دنوں میں اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کیلئے ایک بار پھر آواز اٹھائی جا رہی اور اس بار سینٹ کے اراکین و اراکین قومی اسمبلی اس میں دلچسپی لیتے دکھائی دے رہے ہیں ، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بہت جلد اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کا عملی قدم اٹھا لیا جائے گا
جبکہ ماضی کی کارروائیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں ماضی کی طرح اردو کے نفاذ کا یہ معاملہ ایک بار پر کھٹائی میں پڑ جائے گا ، بعض حلقوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اب پاکستان میں اردو کا بطور سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان کے نفاذ بالکل نا ممکن ہو چکا ہے، خدا کرے کہ اس مرتبہ اردو زبان کا جو معاملہ اٹھایا جا رہا ہے وہ حتمی نتائج کے ساتھ ایک کروٹ بیٹھے اور قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اردو زبان کو اس کا حقیقی مقام مل سکے۔
تحریر : فیصل اظفر علوی